کیا جسٹس بندیال بھی ثاقب نثار اور آصف کھوسہ بنیں گے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سامنے لائے جانے والے عمران خان کی مالیاتی بدعنوانی کے ثبوت دیکھیں تو کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال معزول ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اس سیدھے سادھے کیس میں کیا فیصلہ کریں گے؟ اگر تعصب، جھکاؤ اور جانبداری سے کام لیا گیا تو بندیال بھی اپنے پیش رو ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کی طرح تاریخ کے بدنام زمانہ کرداروں کی صف میں کھڑے دکھائی دیں گے۔
فرائیڈے ٹائمز کے لیے اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ آٹھ سال کا عرصہ لگ گیا، 150 سماعتیں ہوئیں، 100 مرتبہ کیس پر التوا لیا گیا، تین چیف الیکشن کمشنروں نے تحریک انصاف کو ہونے والی فنڈنگ کے ذرائع کا کھوج لگایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف تحریک انصاف نے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالی بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے بھی انصاف کا ترازو الٹا رکھا اور یہ دونوں ادارے ان برسوں میں عمران خان کو سہارا دیئے ہوئے تھے لیکن اب سیاسی ماحول تبدیل ہوچکا۔
اس گناہ کے داغ اصل گناہ گاروں کے دامن پر دکھائی دے رہے ہیں اور یقینا انھیں دھونے کا وقت آ چکا، نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ دلیر اور دیانت دار چیف الیکشن کمشنر، سکندر سلطان راجہ کی قیادت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی فارن فنڈنگ کیس میں رپورٹ عمران خان کے خلاف کھلی فرد جرم ہے۔ رپورٹ الزام لگاتی ہے کہ تحریک انصاف، اس کی اہم قیادت، بشمول عمران نے ”جانتے بوجھتے ہوئے“ممنوع فنڈنگ وصول کی، اکاؤنٹس میں گربڑ کی، بھاری رقوم چھپائیں اور ٹھکانے لگائیں اور جھوٹے حلف نامے جمع کرائے۔
لیکم یہ رپورٹ تو 2008 سے 2013 تک جاری سلسلے کا ایک باہری کنارہ ہے۔ آہستہ آہستہ مزید گھناؤنے حقائق سامنے آرہے ہیں۔ اس کے لیے قوم تحریک انصاف کے اُن بانی رکن اکبر ایس بابر کی مشکور ہے جنھوں نے حقیقت حال کھلنے پر بد دل ہوکر پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور کلمہ حق بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔
بلاشبہ الیکشن کمیشن کی عمران اور تحریک انصاف کے خلاف فرد جرم پی ڈی ایم حکومت کے لیے کسی تائید غیبی سے کم نہیں، اب عمران کو پارلیمنٹ کا رکن ہونے اور تحریک انصاف کی قیادت سے نااہل کرانے کا موقع ان کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ اور رقوم کی خورد برد کی پاداش میں تحریک انصاف کے کئی ایک اہم رہنماؤں کو سزا ہوسکتی ہے۔ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ اس سے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے کیس پر ایک مرتبہ پھر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔
اُنھیں 2017 ء میں سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں حصہ لینے سے تاحیات نااہل کر دیا تھا کیوں کہ اُنھوں نے 2013 ء کے انتخابات کے الیکشن کے حلف نامے میں وہ معمولی سی رقم ظاہر نہیں کی تھی جو قابل وصول تو تھی لیکن اُنھوں نے وصول نہیں کی تھی۔ انصاف کا یہی پیمانہ رکھیں تو عمران کی مالیاتی بدعنوانی کے ملنے والے ثبوتوں کے پہاڑ دیکھیں تو کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ اگر اُن کی ایک تو کیا، سینکڑوں زندگیاں ہوں تو بھی وہ ان سب کے لیے نااہل ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت عمران کو سزا دلوانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ اُن کا صادق اور امین کا بھرم چاک کرسکے۔ صرف یہی نہیں، عمران کے گیارہ ساتھی بھی منی لانڈرنگ اور رقوم کی خورد برد کے سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ ان میں قومی اسمبلی کے سابق سپیکر، اسد قیصر، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی شامل ہیں۔ یہ تحریک انصاف پر پابندی لگوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر بھی غور کر رہی ہے تاہم پارٹی پر پابندی لگانے کا کیس کمزور ہے، نیز کسی مرکزی دھارے کی عوامی جماعت پر پابندی لگانا کسی طور پر پسندیدہ تصور نہیں ہوتا کیوں کہ یہ کسی اور نام سے اپنی سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے خود کو مظلوم ثابت کر کے سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس نے 2017 میں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو اُجاگر کر دیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال زیر عتاب عمران خان کے خلاف اس سیدھے سادھے کیس میں کیا کریں گے؟ اگر تعصب، جھکاؤ اور جانبداری سے کام لیا گیا تو وہ اپنے پیش رو ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کی طرح تاریخ کے بدنام زمانہ کرداروں کی لائن میں کھڑے دکھائی دیں گے۔
سیٹھی کے بقول عمران خان اپنے فریب کی شدت کو ہمیشہ سے جانتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے الیکشن کمیشن کو آٹھ سال سے روک رکھا تھا لیکن جب انھیں معلوم ہوگیا کہ سکندر سلطان راجہ ان کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہیں تو عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے لیکن فوجی اسٹبلشمنٹ کی تائید اور حمایت سے محرومی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
سیاسی انتقام کے خاتمے کے لیے نیب ختم کر دینا چاہئیے
سیٹھی کا کہنا ہے اگر عمران کو قانون اور آئین کے مطابق سزا سنائی جاتی ہے تو اس بحث کا رخ انکی باضابطہ تاحیات معزولی کے سیاسی نتائج پر ہو گا، نواز شریف کے برعکس جس کی پارٹی اپنی بقا کے لیے اپنے خاندانی مورچوں میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگئی، تحریک انصاف کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا کہ وہ جدوجہد کرتی دکھائی دے جبکہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کا امکان ختم ہو چکا ہو۔
قابل فہم بات یہ ہے کہ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان ایک نئے میثاق جمہوریت کی بات ہو سکتی ہے جو آئین میں ترمیم کرتا ہے تاکہ دونوں لیڈروں اور جماعتوں کو جیو اور جینے دوکے قابل بنایا جا سکے لیکن اس کے لیے عمران خان کو انتہائی یوٹرن کی ضرورت ہوگی کیونکہ ان کا مقبول بیانیہ ”چور“ پی پی پی اور پی ایم ایل این کے خاتمے پر ہی بنیاد رکھتا ہے۔
نجم سیٹھی یاد دلاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے مل جل کر دو تہائی مینڈیٹ رکھنے والی پاکستان مسلم لیگ ن کو 2013 سے لے کر 2018 تک عدم استحکام سے دوچار رکھنے اور تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو تاحیات معذول کرانے کا اصل گناہ انجام دیا تھا تاکہ عمران کی ہائبرڈ حکومت کو ملک پر مسلط کیا جا سکے، اب انھیں اس گناہ کی تلافی کرنی ہے۔ ریاستی غیرجانبداری اور منصفانہ کھیل کے ماحول میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا ایک عام مقبول نسخہ ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ عمران کو سزا سنا کر اور نواز شریف کی طرح جلاوطنی پر بھیج کر کھیل کا میدان برابر کر سکتی ہے لیکن ایسا کرنے سے سیاسی طور پر اصل گناہ بڑھ جائے گا، دودری صورت میں وہ نواز شریف کی واپسی میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں تاکہ وہ عمران کے ساتھ برابری کرتے ہوئے اپنی نام نہاد سزاؤں کو الٹ کر ایک آزاد فرد کے طور پر اپنی پارٹی کی قیادت کر سکیں۔
بقول سیٹھی، پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کی طرف سے قلم کا ایک جھٹکا اس بدنام زمانہ قانون کو ختم کر سکتا ہے جو پارلیمانی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے اگر دونوں ریاستی ادارے بھی آگے بڑھتے ہوئے اپنے آئینی کردار کی حدود کو تسلیم کرلیں تو اصل گناہ کی یہی سب سے مناسب تلافی ہوگی۔