ایک وقت تھا جب عدالتیں حکومتیں چلاتی تھیں : جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک وقت تھا جب عدالتیں حکومتیں چلاتی تھیں،اب وہ وقت گزرچکا،ہم یہاں حکومتیں چلانے کےلیے نہیں بیٹھے۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے اقلیتوں کے تحفظ سےمتعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ جڑانوالہ میں چرچ نذر آتش کرنے سمیت تشدد کے واقعات میں ملوث نامزد ملزمان کو ضمانتیں مل چکی ہیں کیوں کہ واقعہ کی تفتیش درست نہیں ہوئی، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اگر ضمانت ہوئی ہے تو منسوخی کےلیے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتےہوئے کہاکہ ایک وقت تھا جب عدالتیں حکومتیں چلاتی تھیں،اب وہ وقت گزر چکا ہے،ہم یہاں حکومتیں چلانے کےلیے نہیں بیٹھے ہوئے،ہم ٹرائل کے عمل میں اس وقت مداخلت نہیں کرسکتے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ ہماری سپریم کورٹ اور بھارتی سپریم کورٹ میں بہت بڑا فرق ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کےاقدام پر مہر لگائی جب کہ ہماری سپریم کورٹ نے 2014 میں ایسا نہیں کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جو بات آپ کررہے ہیں وہ تو نیشنل ایکشن پلان میں شامل ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نےکہا کہ یہاں حکومت کےخلاف اس لیے بات کی جا رہی ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ویوز ملیں۔

افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے : سردار ایاز صادق

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ حال ہی میں ٹرین دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہوا،اگر ایک شخص غفلت برتے تو الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ پوری ریاست ملوث ہے۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 5 ہفتوں تک کےلیے ملتوی کردی۔

Back to top button