چور اور ڈاکو حکومت عمران سے مذاکرات پر نخرے کیوں دکھانے لگی؟
ماضی میں حکومت کی جانب سے مذاکرات کی آفرز ٹھکرانے اور صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت پر اصرار کرنے والے عمران خان اب حکومت سے مذاکرات کے لیے ترلے کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اب دوسری جانب سے نخرے دکھاتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی قابل اعتبار نہیں۔ یعنی عمران خان کل تک جنہیں چور ڈاکو قرار دے کر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے، اب اُن کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوشاں ہیں۔
وہ بات جو عمران کو کئی سال سے سمجھائی جا رہی تھی وہ انہیں ایسے وقت میں سمجھ آئی ہے جب پی ٹی آئی مقبول ہونے کے باوجود اپنی غلط احتجاجی پالیسی کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہے۔ عمران بار بار کی احتجاج کی کالز ناکام ہونے کے بعد اب حکومت پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ انہوں نے اسلام آباد احتجاج کی کال بھی اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت کی مرضی کے خلاف دی جو بری طرح ناکام ہوئی اور بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور کو جوتے اٹھا کر ڈی چوک سے فرار ہونا پڑا۔
یعنی عمران خان نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے سب کچھ کر لیا لیکن انہوں نے جو بھی چال چلی وہ الٹی ہی پڑی۔ اب جب عمران اور ان کی تحریک انصاف مذاکرات کیلئے جتن کرتے نظر آتے ہیں تو حکومتی اتحاد میں شامل نون لیگ اور پیپلز پارٹی نخرے دکھا رہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کا کہنا ہے کہ عمران پر اعتبار کون کرے اور بانی چیئرمین کی گارنٹی کون دے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ عمران اپنی ساکھ کھو چکے ہیں چونکہ وہ جب بھی کوئی معاہدہ کرتے ہیں، اس سے یو ٹرن ضرور لیتے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شرائط کے ساتھ بات چیت کرنے کا کیا جواز ہے؟
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی کے حوالے سے عمران خان کی ٹائمنگ ہمیشہ غلط رہی ہے۔ جب مذاکرات کا وقت تھا تب موصوف احتجاج کرتے رہے اور اب جب پانی سر سے گزر گیا ہے تو انہیں مذاکرات کرنا ہی یاد آ گئے ہیں۔ اب تک عمران نے ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ بات چیت ہو گی تو صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ، لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جھنڈی دکھائے جانے کے بعد اب وہ اتحادی حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت دوسرے موڈ میں دکھائی دیتی ہے۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران کو پہلے اپنی اور اپنی جماعت کو درپیش مشکلات کو سمجھنا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ آخر اُن سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں کہ وہ عوامی مقبولیت کے باوجود جیل میں بند ہیں اور اُن کی سیاست بند گلی میں جا چکی ہے۔ اگر خان صاحب چاہتے ہیں کہ آنے والے وقت میں اُن کیلئے سیاست کا رستہ ہموار ہو اور وہ جیل سے باہر نکلیں تو پھر اُنہیں اپنے طرز سیاست کو بدلنا ہو گا۔ اُن کو الزامات کی منفی سیاست سے دوری اختیار کرنا پڑے گی اور سب سے اہم یہ کہ انہیں اپنی جماعت اور اس کے سوشل میڈیا بریگیڈ کو فوج اور فوجی قیادت کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے سے روکنا ہو گا۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کے حالیہ اسلام آباد مارچ کی ناکامی کو کور کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے جھوٹ پر مبنی یہ پروپگینڈا کیا کہ ڈی چوک میں فوج کی فائرنگ سے اسکے 278 لوگ مارے گئے حالانکہ سچ یہ ہے کہ اسلام اباد احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز اور تحریک انصاف کے پانچ پانچ لوگ اپنی جانوں سے گئے جس کے ذمہ دار احتجاجی کال دینے والے عمران خود تھے۔ ویسے بھی فوج کی ذمہ داری صرف اسلام آباد کی اہم ترین عمارتوں کی حفاظت تک محدود تھی۔
اگر ایک طرف تحریک انصاف کے رہنمائوں نے اشارتاً یا کھل کر فوج ہر فائرنگ کا الزام لگایا تو دوسری طرف پارٹی کے سوشل میڈیا اور بیرون ملک بیٹھے حمایتوں نے فوج مخالف پروپیگنڈا چلایا جس کو نہ تو روکا گیا اور نہ ہی عمران خان کی جانب سے اسکی مذمت کی گئی۔ ایسے میں انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان معنی خیز مذاکرات چاہتے ہیں، اور اپنی مشکلات ختم کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں سب سے پہلے اپنی گزشتہ ڈھائی برس کی فوج مخالف پالیسی کو ریورس کرنا ہو گا۔ اُن کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اُن کے فوج مخالف خلاف بیانیے نے کس طرح اُن کے ووٹرز اور سپورٹرز میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کر دی ہے جس کا ایک نتیجہ 9؍مئی کیلے حملوں کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
فیض حمید اور عمران کو سزا دینا فوجی قیادت کی مجبوری کیوں ہے؟
انصار عباسی کہتے ہیں کہ اگر عمران فوج اور فوجی قیادت کے خلاف بات کرتے رہیں گے اور ان پر مسلسل جھوٹے الزامات عائد کرنے سے باز نہیں آئیں گے، تو پھر ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مذاکرات اگر ہو بھی گئے تو ان کیا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔ لہازا خان صاحب کو پہلے خود اور پھر اپنے ساتھیوں اور سوشل میڈیا بریگیڈ کو سختی سے فوج کی مخالفت سے روکنا ہو گا۔ اگر ایسا کریں گے تو آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران اور ان کے ساتھیوں نے تحریک انصاف کا تاثر ایک انتشاری ٹولے کا بنا دیا ہے جو مسلسل ایک ریاست مخالف پالیسی پر چل رہا ہے۔ اب بھی عمران نے ایک جانب مذاکرات کی خواہش کر رکھی ہے تو دوسری جانب سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ انیوں نے مذاکرات کرنے ہیں تو سول نافرمانی کی کال دینے کی کیا ضرورت تھی؟ انصار عباسی یاد دلاتے ہیں کہ سول نافرمانی کی تحریک تو ماضی میں بھی ناکام رہی تھی اور عمران کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔