دھمکی آمیز خط سابق سفیراسد مجید کا لکھا ہوا نکلا

باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں لہرایا جانے والا مبینہ دھمکی آمیز خط دراصل کسی غیر ملک نے نہیں بلکہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے لکھا ہے۔

اسد مجید خان چند ماہ پہلے تک امریکا میں پاکستانی سفیر کے سفیر تھے جن کی جگہ آزاد کشمیر کے سابق صدر مسعود احمد خان کو نیا سفیر تعینات کیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ایک ملاقات کے بعد دفتر خارجہ کو ایک خفیہ مراسلہ بھیجا تھا جس کے مندرجات کو وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے کچھ وزرا سے بھی شئیر کیا گیا تھا۔

دفتر خارجہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کابینہ سے شئیر کرنے کے بعد ایسے مراسلوں کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سیل کر دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے 30 مارچ کے روز وزیراعظم کی جانب سے یہ مراسلہ صحافیوں کے ساتھ شئیر کئے جانے کے اعلان کے بعد انہیں یوٹرن لینا پڑا چونکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس طرح کے مراسلے پبلک نہیں کیے جا سکتے۔

یوں وزیراعظم کا یہ دعویٰ درست نہیں لگتا کہ پاکستان کو بیرون ملک سے دھمکی آئی ہے جس کا تعلق ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے اس خط کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں لکھا گیا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پاکستان شدید مسائل کا شکار ہو جائے گا۔

یعنی ان کے کہنے کا یہ مطلب تھا کہ عمران خان کو ایک غیر ملکی سازش کے تحت نکالا جا رہا ہے اور اگر یہ سازش کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر دی جائیں گی۔ ان کا دعوی تھا کہ تحریک عدم اعتماد آٹھ مارچ کو دائر کی گئی جبکہ یہ خط سات مارچ کو لکھا گیا۔ لیکم اسد عمر شاید بھول گئے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان تین ہفتے پہلے کیا گیا تھا اور اس پر عملدرآمد آٹھ مارچ کو ہوا جب بلاول بھٹو لانگ مارچ کا جلوس لے کر اسلام آباد پہنچے تھے۔

یاد رہے کہ عمران کی جانب سے 27 مارچ کے جلسے میں حکومت کے خلاف ’عالمی سازش‘ کا مبینہ دھمکی آمیز خط موصول ہونے کا دعوی کیا گیا تھا۔ انکی طرف سے یہ آفر بھی کی گئی تھی کہ ’اگر کسی کو شک ہے تو یہ مراسلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو دکھایا جا سکتا ہے’۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان دراصل اپنی حکومت گرانے کی سازش کا الزام امریکہ پر عائد کر رہے ہیں۔

اپنے اس الزام کے حق میں وہ یہ موقف بھی اختیار کر سکتے ہیں کہ اسی وجہ سے امریکی صدر جو بائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد ان سے سے ایک مرتبہ بھی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ بیرونی سازش کا چورن اب پرانا ہو چکا ہے اور عمران کو اپنی حکومت کے خاتمے کا مدعا امریکہ پر ڈالنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے چونکہ ان کا اقتدار ان کے اتحادیوں اور ساتھیوں کی بغاوت کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جس کاغز کو وزیراعظم عمران خان دھمکی آمیز خط قرار دے رہے ہیں وہ کوئی خط نہیں بلکہ ایک ڈپلومیٹک کیبل ہے جو عموما کسی ایشو کی اسسمینٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی طرح ایک ڈپلومیٹک کیبل امریکہ میں سابق سفیر اسد مجید خان نے بھی بھیجی تھی جو چھ مہینے پہلے سفیر کا عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سفارتی سطح پر روابط کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں جس میں سفارتخانہ اپنے ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ کرتا ہے۔ اس میں ایک ذریعہ خط ہے اور ایک ٹیلی گرام ہے۔

بنیادی طور پر کیبل ایک ٹیلی گرام یا تار ہوتا ہے، ایسی کیبلز بھی ہوتی ہیں جو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا اس کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے۔ ایسی کیبل کو ‘سائیفر کیبل‘ کہا جاتا ہے۔‘ سفارتخانے کی جانب سے ہیڈ کوارٹر کو دی جانے والی ایسی اطلاع جسے باقی لوگ نہ پڑھ سکیں اور نہ ترجمہ کر سکیں وہ سائیفر کہلاتی ہے۔‘

دھمکی آمیز خط امریکہ میں سابق سفیراسد مجید نے بھیجا

پاکستانی سفارتخانہ ایسے مراسلوں کو سیکرٹری خارجہ کو رپورٹ کرتا ہے اور اگر کوئی معلومات سائیفیر ٹیلی گرام ہے تو وزارت خارجہ اور وزیر اعظم سمیت پانچ جگہ اس کا ترجمہ بھجوایا جاتا ہے ۔ڈپلومیٹک کیبل کو سفارتخانہ اپنے دفتر خارجہ بھجواتا ہے اور اس میں مختلف کیٹگریز ہوتی ہیں۔ ایک کیٹگری ہوتی ہے جس میں معلومات صرف سیکرٹری خارجہ کو بھجوائی جاتی ہیں۔ دوسری کیٹگری میں سیکرٹری خارجہ، وزیر خارجہ اور وزیراعظم کو کاپی دی جاتی ہے جبکہ ایک کیٹگری ایسی بھی ہوتی ہے جس کی کاپی ملک کے سپہ سالار، وزیراعظم، صدر، وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کو اکٹھی بھجوائی جاتی ہے۔

جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایک دھمکی آمیز خط موجود ہے تو سفارتی ذرائع کے مطابق یہ ایک مراسلہ ہے جو واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان نے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا سے ایک ملاقات کی بنیاد پر تحریر کیا اور پاکستانی دفتر خارجہ کو بھجوایا۔ ذرائع کے مطابق اس خط میں کوئی دھمکی تو موجود نہیں تاہم یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پاکستان میں سیاسی تبدیلی آتی ہے تو امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

threatening letter written by former ambassador Asad Majeed | video in Urdu

Back to top button