ٹائیگرز کی گندگی
تحریر : حامد میر
بشکریہ: روزنامہ جنگ
حکمرانوں کی طرف سے جھوٹے الزامات اور دھمکیاں مجھ جیسے صحافیوں کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ ہر حکمران صحافیوں اور دانشوروں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب کوئی صحافی لالچ اور پیار و محبت سے نہ مانے تو پھر اس کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ وہ باز نہ آئے تو اسے کسی جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔ مجھے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پابندیوں سے شروع ہونے والی کہانی میں قتل اور اغواء کے جھوٹے مقدمات جیسے کئی واقعات شامل ہیں۔ پھر گاڑی کے نیچے بم لگانے اور قاتلانہ حملوں سے بات بڑھتےہوئے توہین رسالت کے جھوٹے الزام تک پہنچی۔ یہ سب کیوں ہوتا رہا؟ وجوہات بھی سب کو پتہ ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت پر تنقید کرنے کی وجہ سے میرے سمیت کئی صحافیوں کو عبرت کی مثال بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے پیچھے کارفرما کرداروں کو بےنقاب کرنے کی کوشش، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھانے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کی وجہ سے اس ملک کے طاقتور خفیہ اداروں کے کچھ سربراہان نے مجھے غدار قرار دیکر راستے سے ہٹانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن مارنے والے سے بچانے و الا بڑا ہے۔ موت اللہ کی مرضی سے آتی ہے انسانوں کی مرضی سے نہیں آتی۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں اس ملک کے طاقتور خفیہ اداروں کی ہم نوائی کرنے والے کچھ صحافیوں اور اینکرز نے مجھے غدار ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مئی 2021ء میں مجھ پر جنرل فیض حمید کے حکم سے پابندی لگی تو ایک اینکر صاحب اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے پاس پہنچے اور کہا کہ اگر حامد میر دوبارہ ٹیلی ویژن سکرین پر آ گیا تو یہ پاکستانی فوج کا سرنڈر ہو گا۔ مجھے خود پابندیوں کو قبول کرنے والے میڈیا پر واپس آنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے واشنگٹن پوسٹ اور ڈی ڈبلیو اردو میں کالم لکھنا شروع کر دیا۔ مارچ 2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو میری جیو نیوز میں واپسی ہو گئی لیکن بتانا یہ ہے کہ جو صاحب میری واپسی کو فوج کا سرنڈر قرار دے رہے تھے وہ پاکستان سے فرار ہو گئے۔ آج کل امریکہ میں بیٹھ کر فوج کو برا بھلا کہتے ہیں۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کو قبول نہ کرنے پر آج بھی طاقتور لوگ مجھ سے ناراض ہیں۔ یہ ناراضی کسی سےڈھکی چھپی نہیں ہے آج میں اس ناراضی کو اجاگر نہیں کرنا چاہتا بلکہ ایک ایسی حقیقت ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں جسے تاریخ کا حصہ نہ بنانا بہت بڑی بددیانتی ہو گی۔ عام تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف والے سوشل میڈیا پر بہت گالی گلوچ کرتے ہیں۔ میں خود اس گالی گلوچ اور طوفانِ بدتمیزی کا کئی دفعہ سامنا کر چکا ہوں۔ آج آپ کو یہ بتانا ہے کہ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ میں مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ ویسے تو مسلم لیگ (ن) والے جب بھی حکومت میں آتے ہیں تو تنقید کرنے والے صحافیوں کی آواز دبانے کیلئے آخری حد تک جاتے ہیں۔ 2016ء میں اس پارٹی کی حکومت نے پارلیمینٹ سے پیکا ایکٹ منظور کیا جو بعد میں اسی پارٹی کے حامیوں کے خلاف استعمال ہوا۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ شہباز شریف کی وزارت ِعظمیٰ کچھ مختلف ہو گی لیکن یہ خوش فہمی بھی اب دور ہو چکی۔ 26نومبر کو اسلام آباد کے جناح ایونیو پر جو کچھ ہوا اس پر حکومت کا موقف یہ ہے کہ اسلام آباد میں سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے کوئی نہیں مارا گیا۔ جن صحافیوں نے حکومت کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کیا وہ ناصرف ملک دشمن بلکہ واجب القتل قرار دیئے جا رہے ہیں۔ قتل کی دھمکیاں ہمارے لئے نئی نہیں ہیں۔ نئی چیز تو ملک دشمنی کا الزام بھی نہیں، نئی چیز یہ ہے کہ حکومت ایک طرف مطیع اللہ جان پر منشیات اور دہشت گردی کا جھوٹا مقدمہ درج کرتی ہے اور دوسری طرف فیک نیوز کے خلاف قانون سازی کا اعلان کر دیتی ہے۔ نئی چیز یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے حامی حکومت کے موقف سے اختلاف کرنے والے صحافیوں کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی تصاویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر صحافیوں کے ساتھ گالی گلوچ کرنے والے بہت سے مرد و خواتین کا کسی خفیہ ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ وہ ہیں جن کو مریم نواز کئی دفعہ اپنا ٹائیگر قرار دے چکی ہیں اور وہ اپنے ٹائیگرز کی طرف سے پھیلائی جانے والی گندگی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آج کل مریم نواز کیلئے اچھا صحافی وہ ہے جو عمران خان کو دہشت گرد اور بشریٰ بی بی کو جادو گرنی قرار دے۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی سوشل میڈیا پر میری مرحومہ والدہ کو جو بھی کہتے رہیں اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق اگر پڑ رہا ہے تو مریم نواز اور ان کی مرحومہ والدہ کو پڑ رہا ہے جن کی میں آج بھی عزت کرتا ہوں۔ آج کل مسلم لیگ (ن) والے سوشل میڈیا پر میرے خلاف جو الزامات لگا رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حامد میر نے جنرل پرویز مشرف سے لال مسجد میں آپریشن کا مطالبہ کیا تھا۔ چودھری شجاعت حسین آج کل مسلم لیگ (ن) کے اتحادی ہیں۔ مریم نواز ان سے پوچھ لیں کہ میں نے ناصرف لال مسجد کے اندر جا کر مذاکرات کے حق میں ٹی وی شو کیا بلکہ آپریشن شروع ہونے سے قبل بھی ان کا غازی عبدالرشید سے رابطہ کرایا تاکہ خونریزی نہ ہو۔ دوسرا الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ میں نے اجمل قصاب کے گائوں جا کر پروگرام کیا تھا۔ یہ الزام جنرل قمر جاوید باجوہ لگایا کرتے تھے۔ اگر میں نے ایسا کوئی پروگرام کیا تھا تو وہ کہاں غائب ہو گیا؟ ایک اور الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ میں نے ملک ریاض سے پلاٹ اور پیسے لیکر حکومت پر تنقید شروع کر دی ہے۔ میں وہ پہلا صحافی تھا جس نے ملک ریاض کے خلاف عدالتی کارروائی کی اور ان سے تحریری بیان دلوایا کہ انہوں نے مجھے کبھی پلاٹ دیا نہ کوئی رقم دی۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ آپ فیک نیوز کے خلاف قانون سازی ضرور کریں لیکن اپنی سرپرستی میں فیک نیوز کا پھیلائو بھی بند کریں۔
یہ سب جادو کا کارخانہ ہے!
فیک نیوز کے نام پر قانون سازی کا مقصد صرف مخالف سیاسی کارکنوں اور گستاخ صحافیوں کو سبق سکھانا ہے تاکہ حکمرانوں کے ٹائیگرز کسی روک ٹوک کے بغیر گندگی پھیلاتے رہیں۔ یہ کام ٹائیگرز کا نہیں گیدڑوں کا ہے۔