عمران دور کے "موسٹ وانٹڈ” عمر فاروق کو سرکاری اعزاز کیسے ملا؟

14 اگست کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کے لیے سرکاری اعزازات کا اعلان معمول کی بات ہے، لیکن اس برس اعزازات لینے والوں کی لسٹ تب تنقید کی زد میں آ گئی جب اس میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کے گواہ عمر فاروق کا نام دکھائی دیا جو کہ ماضی میں "موسٹ وانٹڈ” لسٹ میں شامل تھا۔ یاد ریے کہ ایوان صدر نے ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی جو حتمی لسٹ جاری کی ہے انھیں آئندہ برس 23 مارچ کو ہونے والی تقریب میں اعزازات دیے جائیں گے۔ اس لسٹ کے مطابق دبئی میں مقیم عمر فاورق نامی بزنس مین کو سماجی شعبے میں خدمات سرانجام دینے پر ہلال امتیاز دینے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ سب سے بڑا سویلین اعزاز ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کیبنٹ ڈویژن کے ایک افسر نے بتایا ہے کہ یہ وہی صاحب ہیں جن کا نام عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں سعودی ولی عہد کی جانب سے سابق وزیراعظم کو تحفے میں ملنے والی بیش قیمت گھڑی کے خریدار کے طور پر سامنے آیا تھا۔ عمر فاروق نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے محمد بن سلمان کی جانب سے عمران خان کو دیا جانے والا خصوصی گفٹ سیٹ، جس میں ایک گھڑی بھی شامل تھی، سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے ذریعے خان صاحب کی اہلیہ بشری بی بی کی قریبی دوست فرح خان سے دبئی میں 2 ملین ڈالرز میں خریدا تھا۔ تاہم تحریک انصاف کی جانب سے اس دعوے کر رد کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا تھا کہ تحفے میں دی گئی گھڑی عمر فاروق کو نہیں بلکہ پاکستانی مارکیٹ کے ایک ڈیلر کو پانچ کروڑ ستر لاکھ روپے میں فروخت کی گئی تھی۔
پاکستان کا سب سے بڑا سویلین اعزاز حاصل کرنے والے عمر فاروق کی ’سماجی خدمات‘ کی تفصیلات تو عوامی ریکارڈ میں موجود نہیں تاہم ان کا نام پہلی بار عمران خان کے دور حکومت میں ایک ’انتہائی مطلوب شخص’ یعنی موسٹ وانٹڈ کے طور پر سامنے آیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمر فاروق کے خلاف اپنی بیوی کو دھمکیاں دینے اور بچیوں کو زبردستی چھیننے کے الزام میں اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انھیں اشتہاری بھی قرار دیا گیا تھا۔ اسی سلسلے میں ان کا نام بیرون ملک میں ہونے کی وجہ سے انٹرپول کی فہرست میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے بعد عمر فاورق نے اس مقدمے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی تھی جو منظور کر لی گئی اور اس تحقیقاتی ٹیم میں ایف آئی اے کے سینیئر ڈائریکٹرز بھی شامل تھے۔ اس جے آئی ٹی نے متعلقہ عدالت میں جو رپورٹ جمع کروائی اس کے مطابق عمر فاروق کے کسی جرم میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کو عمر فاروق کی سابقہ اہلیہ صوفیہ جمال کی مدد کا کہا تھا اور متعلقہ اداروں نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عمر فاروق کے غیر ضمانتی وارنٹ حاصل کیے اور ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلیک لسٹ کر دیا تھا۔
واضح رہے انٹرپول نے عمر فاروق کا نام اپنی لسٹ سے نکال دیا تھا جبکہ لاہور کی مقامی عدالت نے انھیں جعلی شناختی کارڈ بنوانے اور اپنی ہی بیٹیوں کو اغوا کے الزام سے بھی بری کر دیا تھا۔ عمران خان کے دور میں داخلہ امور سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ عمر فاروق کے خلاف درج ہونے والے مقدمے اور اس ضمن میں ہونے والی کارروائی قانون کے مطابق ہوئی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس شخص نے ایف آئی اے کے ساتھ ملی بھگت کرکے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمے کو نہ صرف ختم کروایا بلکہ خود شہزاد اکبر کے خلاف بھی مقدمہ درج کروایا جس کے خلاف انھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو خارج کردیا۔
سرکاری اعزازات کے حوالے سے ناموں کی منظوری کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ انھیں یاد نہیں کہ انھوں نے عمر فاورق کا نام ایوارڈ لینے والوں کو فہرست میں شامل کیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہر صوبے کی اس ضمن میں ایک کمیٹی ہوتی ہے جو اپنی سفارشات ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی کو بھیجتی ہے‘ اور ان کی کمیٹی میں صوبائی سطح پر قائم کی گئی سب کمیٹیوں کی سفارشات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ایوارڈ حاصل کرنے والے ناموں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی ناموں کو اپنے طور پر منتخب کر کے اس فہرست کو وزیر اعظم سیکریٹریٹ بجھوا دیتی ہے جہاں پر اسے حتمی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں بھی اس فہرست میں مختلف لوگوں کے نام شامل کیے یا نکالے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومتیں بھی ایوارڈ کے لیے نام تجویز کرتی ہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ ان کا نام پنجاب حکومت کی جانب سے آیا ہو۔