ٹرمپ کی جیت عوام کی جیت ہے یا ایک جھوٹے بیانیے کی جیت ہے؟

امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت عمران خان کی طرح دنیا بھر کے ان پاپولسٹ لیڈرز کے لیے ایک اچھی خبر ہے جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی اس نظریے پر رکھی ہے کہ سچ، جھوٹ اخلاقیات اور اصولوں کی بحثیں کسی راہ نما کے چناؤ میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکی صدارتی الیکشن میں جیت کے بعد اب پی ٹی آئی کا سارا زور بس ایک ہی نکتے پر مرکوز ہے کہ 20 جنوری کو صدارت کا منصب اٹھاتے ہی ٹرمپ ’’شاہ زادے‘‘ کو ’’جِن‘‘ کی قید سے رہائی دلائے گا۔ تاہم نہ تو ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں اور نہ ہی صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد کوئی ایسا اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے نام نہاد دوست کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

حماد غزنوی ڈونلڈ ٹرمپ کا ان کے اپنے ہی الفاظ میں تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "اسے اللّٰہ سب کچھ دے چکا تھا، اسے خود کو مشکلات میں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن وہ اپنے لوگوں سے محبت کرتا تھا، وہ اپنے ملک سے محبت کرتا تھا اور اس عظیم مشن کےلیے اسکی جان بھی حاضر تھی۔اس کے عظیم ملک پر اغیار کا قبضہ ہو چکا تھا، یہ قبضہ واگزار کرانے کےلیے قدرت نے اسے چن لیا تھا، وہ مسیحا تھا، قوم کی آخری امید۔ وہ سیاست کرتا تھا لیکن وہ سیاست دان نہیں تھا، نہ اسے خریدا جا سکتا تھا، نہ وہ طاقتور دشمنوں کے آگے سر جھکانے کےلیے تیار تھا۔ اسکے مخالف سیاست دان کٹھ پتلیاں تھے، جو دشمنوں کے ساتھ مل کر ملک کیخلاف سازشیں کر رہے تھے”۔

حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کی اکثریت نے ٹرمپ کا یہ چورن خریدتے ہوئے ان پر اعتبار کیا ہے اور انہیں ووٹ دیکر ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس پہنچا دیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے ناقدین کی رائے اس سے مختلف ہے، وہ ٹرمپ کو ایک پاپولسٹ راہ نما سمجھتے ہیں جنہوں نے جذبات، خوف اور نفرت کی بنیاد پر اپنے قصرِ سیاست کی تعمیر کی ہے۔

حماد غزنوی کے بقول صدارتی الیکشن میں ٹرمپ نے امریکا میں آباد تارکینِ وطن کو تمام مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے اپنے جلسوں اور تقریروں میں اس الزام کا بار بار اعادہ کیا کہ امریکا میں جرائم تارکینِ وطن کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں، ڈیموکریٹس چارٹرڈ ہوائی جہازوں میں غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں کی جیلوں سے مجرموں کے گینگز، اور پاگل خانوں سے لوگوں کو پیسے دے کر امریکا لا رہے ہیں اور یہ افراد اپنے ساتھ بہت بڑی مقدار میں ہیروئن سے پچاس گنا ذیادہ طاقت ور مرکب بھی لیکر آ رہے ہیں۔

ٹرمپ کا موقف تھا کہ امریکا کا ہاؤسنگ بحران بھی تارکین کی وجہ سے ہے اور بے روزگاری کے مسئلے کی جڑ بھی تارکین وطن ہیں۔ امیگرنٹس کیخلاف نفرت کی ہانڈی کو تڑکا لگانے کےلیے ٹرمپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اسپرنگ فیلڈ اوہائیو میں تارکین ِ وطن ہمارے پالتو کتے اور بلیاں بھی کھا جاتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں ان میں سے ایک بات بھی درست نہیں تھی اور ٹرمپ نے صدارتی مہم کے دوران جو جورن بیچا وہ جھوٹ پر مبنی تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کی تحقیق کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران 30,573 مرتبہ جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا تھا، اور پھر ان کا ایسا ’جھاکا‘ کھلا کہ انہوں نے 2020ءکے صدارتی انتخاب کو فراڈ قرار دیکر اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے کی کامیاب ترغیب دی تھی۔ ان کے پاس اس الزام کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں تھا مگر پچاس فی صد ریپبلکن حامیوں نے اس الزام پر اعتبار کیا تھا۔

حماد غزنوی کے بقول نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے اس طرح ٹرمپ نے اپنے حامیوں کی ’خودی‘ کو تحفظ فراہم کیا تھا جنہیں یقین دلا دیا گیاکہ وہ ہارے نہیں بلکہ انہیں ہرایا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ ذرائع ابلاغ کی ہیئت و ترکیب نے سچ تک پہنچنے کے عمل کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے، یوں بھی سچ اکثرسادہ و بے رنگ ہوا کرتا ہے، جب کہ جھوٹ سننے والوں کی خواہشات اور نفسیاتی ضروریات کے عین مطابق من مرضی کے رنگ و روغن سے مینوفیکچر کیا جا تا ہے۔

فائنل احتجاج کی کال: عمران کا اپنی پارٹی قیادت پر عدم اعتماد

بہرحال اپنا جھوٹ پر مبنی چورن بیچ کر اب ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے سینتالیسویں صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ان کی رنگین مزاج شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بجا طور پر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اگلے چار سال امریکہ میں خوب رونق لگائے رکھیں گے۔

Back to top button