امریکہ نے عمران کا دھمکی آمیز خط کا الزام مسترد کر دیا

امریکی محکمہ خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خلاف بیرون ملک سے آنے والے ’دھمکی آمیز خط‘ کے الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی صداقت نہیں اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں بلاوجہ بیرونی ممالک کو گھسیٹنے کی کوشش مناسب نہیں ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھیجے گئے سوالنامے کے جواب میں ان الزامات کی باقاعدہ تردید کی ہے۔انڈپینڈںٹ اردو کی جانب سے امریکی محکمہ خارجہ کو بذریعہ ای میل بھیجے گئے سوالنامے میں پوچھا گیا تھا کہ کیا محکمہ خارجہ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیان سے واقف ہے؟ کیا محکمہ خارجہ نے بذریعہ اسلام آباد سفارت خانہ پاکستان سے اس حوالے سے کوئی رابطہ کیا ہے؟ اور امریکی محکمہ خارجہ کا ان الزامات کے حوالے سے کیا ردعمل ہے؟ سوالنامے کے جواب میں محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا: ’ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے اور پاکستان کے درمیان نئی معاملات میں بیرونی ممالک کو ملوث کرنے کی کوشش مناسب نہیں‘۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ’ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔‘ انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے اپنے خلاف دائر کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارے ملک کے اندر موجود لوگوں کی مدد سے حکومتیں تبدیل کی جاتی رہیں۔ اپنے لوگوں کی مدد سے حکومتوں کو تبدیل کیا گیا۔‘

وزیراعظم نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی ذکر کیا، جن کے بارے میں پاکستان میں عام تاثر ہے کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا: ’ذوالفقار علی بھٹو نے جب ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تو فضل الرحمٰن اور نواز شریف کی اس وقت کی پارٹیوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور ملک میں آج جیسے حالات بنا دیے گئے۔‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’خارجہ پالیسی کو مروڑنے کی باہر سے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سازش کا ہمیں پچھلے کئی مہینوں سے پتہ ہے۔‘

حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان نے کئی موقعوں پر مغرب خصوصاً امریکہ مخالف موقف اختیار کیا ہے۔

رواں برس فرروی میں عمران خان کے دورہ روس کے دورے کے بعد ان سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا: ’ہم امریکہ کی غلامی نہیں کریں گے۔‘
جب اس حوالے سے وائٹ ہاؤس سے سوال کیا گیا تو ترجمان نے جواب دینے سے گریز کیا تھا۔ 27 مارچ کے جلسے میں بھی وزیراعظم نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا تھا: ’ہم کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ ہم سب سے دوستی کریں گے، غلامی نہیں کریں گے۔‘ وزیراعظم نے جلسے میں مزید کہا: ’ہمیں پتہ ہے کہ کن کن جگہوں سے باہر سے ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔‘

جلسے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اے آر وائے نیوز سے گفتگو کے دوران کہا تھا: ’ہمیں جو پیغام ملا وہ ہم نے وزیراعظم سے بھی شیئر کیا اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی شیئر کیا۔‘ وزیر خارجہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کی یہ خط دفتر خارجہ کو موصول ہوا تھا۔ جب ان سے مزید پوچھا گیا کہ ’کیا پاکستان کو یہ بھی کہا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان روس کا دورہ نہ کریں؟‘ تو شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ روس دورے پر تحفظات تھے، جن پر پاکستان نے اپنا موقف سامنے رکھا تھا۔
دوسری جانب پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا تھا کہ وزیراعظم نے خط چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھانے کی پیشکش کی ہے۔

دھمکی آمیز خط امریکہ میں سابق سفیراسد مجید نے بھیجا

اسد عمر سے ہی جب اے آر وائے نیوز کے شو ’پاور پلے‘ میں اینکر پرسن ارشد شریف نے ماضی میں میمو گیٹ کا حوالے دیتے ہوئے سوال کیا کہ ’یہ خط سپریم کورٹ کو کس قانون کے تحت بھیجا جائے گا اور کیا یہ خط سیلڈ لفافے میں سپریم کورٹ میں ہی پڑا رہے گا؟‘ اس پر اسد عمر نے جواب دیا: ’یہ مراسلہ ذاتی نہیں بلکہ سرکاری ہے۔‘

واضح رہے کہ میمو گیٹ تنازعے میں بھی امریکی جنرل مائیک مولن کو ایک خط لکھا گیا تھا۔ اس تمام بیانیے سے اس تاثر کی تقویت ملی کہ حکومت اگرچہ نام نہیں لے رہی مگر ذکر امریکہ کا ہی کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور میڈیا رپورٹس میں یہ بحث بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستانی حکومت جس ملک کا نام کھل کر نہیں لے رہی وہ امریکہ ہے۔

US denied any involvement in Imran’s threatening letter | video in Urdu

Back to top button