عمران سے شیطانی ڈیل کرنے والے لوگ کون ہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ فوجی ترجمان نے پاکستانی میڈیا کو اسیٹبلشمنٹ اور نواز شریف کے مابین کسی ”ڈیل“ کے بارے میں قیاس آرائیوں سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ فوج سیاست میں ملوث نہیں ہے۔ سیٹھی کے مطابق یہ خبر خوش آئند ہے۔ لیکن ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے ہم عمران خان کے ساتھ کی گئی شیطانی ڈیل پر کھیلے گئے سیاسی کھیل کی علامات تلاش کرنے، اور ان کا کھوج لگانے کا جواز رکھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنے آئینی حقوق کی بحالی چاہتے ہیں اور انہیں اپنے سیاسی راہ نما چننے کا حق بھی حاصل ہے۔ لہٰذا جتنی جلدی اس ہائبرڈ نظام کو بنانے اور پھر بچانے والے اسے منصوعی سہارے دینے سے پیچھے ہٹنا شروع کریں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا تاکہ پاکستانی عوام اپنے قانونی حق کو استعمال کر سکیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ امریکا کے ایک موقر تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کی رپورٹ، ”جمہوریت کا محاصرہ“ بتاتی ہے کہ گذشتہ پندرہ سالوں سے عالمی سطح پر جمہوریت ہر سال زوال پذیرہے۔ سب سے نمایاں زوال دنیا کی دو ”عظیم ترین“ جمہوریتوں، امریکا اور ہندوستان میں دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 73 ممالک میں جمہوریت گراوٹ کا شکار ہے۔ پاکستان کو ”جزوی طور پر آزاد” ممالک میں شمار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں جمہوری نظام اور اقدار میں ہونے والے عالمی زوال کی ایک وجہ سوشل میڈیا کے غیر معمولی عروج کو قرار دیا گیا ہے جس نے ایسے افراد کو اظہار کی طاقت دی ہے جو روایتی اقدار یا انفرادی شناخت کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ اس نے عوامی تعصبات کے لئے ایک مسلسل پھیلتا ہوا پلیٹ فارم فراہم کر دیا ہے۔ اس کے ذریعے ہونے والے منظم پروپیگنڈے، غلط معلومات، جعلی خبرں وغیرہ نے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کی بالا دستی کو ختم کر دیا ہے۔ اور مرکزی دھارے کا یہی میڈیا جدید، لبرل، آئینی اقدار کی حمایت کرتا ہے۔
نجم سیٹھی کے مطابق پاکستان میں بھی ہم 2018ء میں اسٹیبلشمنٹ اور سلیکٹڈ وزیراعظم کی مشترکہ سرپرستی میں ایک ہائبرڈ نظام کا تجربہ کرتے ہوئے جمہوریت کی پٹڑی سے پھسل گئے۔ جمہوریت سے گریز کی عکاسی حزب اختلاف کو نشانہ بنائے جانے اور نیب، ایف آئی اے، پولیس اور عدلیہ جیسے ریاستی اداروں کے ذریعے میڈیا پر کریک ڈاؤن اور جابرانہ یا غیر جمہوری نئے قوانین کی موسلا دھاربرسات سے ہوتی ہے۔ لیکن اب، تین سال بعد یہ ہائبرڈ حکومت اپنی غلطیوں اور تضادات کے بوجھ تلے دب رہی ہے۔ اس کے عسکری سرپرستوں کے ذاتی عزائم کا بوجھ بھی کچھ کم نہیں۔ یہ سوشل میڈیا ہے جو کہ اصل میں ہائبرڈ حکومت کے منظم پروپیگنڈے کا ذریعہ تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی سوشل میڈیا نے اس ہائبرڈ نظام حکومت کو بنانے اور بچانے والوں کی بے نقاب کیا یے۔ اسی سوشل میڈیا نے عوام کو ان سے کی جانے والی سازشوں، دھوکا دہی، مکر وفریب، دیوالیہ پن، یوٹرن، جھوٹ اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لئے عوامی پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساکھ کے بحران کا شکار فوجی اسٹیبلشمنٹ اس پریشان کن صورتحال سے نکلنے کے لئے قدرے کم غیر قانونی اور غیر مقبول راستے تلاش کر رہی ہے۔ ان میں تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنے کا آپشن بھی شامل ہے۔
سیٹھی کے مطابق اس ممکنہ ‘جمہوری’ بحالی کے دو واضح مظاہر ہیں۔ پہلا پاکستان کو آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران میں دھکیلنے والی تحریک انصاف کی حکومت سے ہر کوئی نفرت کر رہا ہے۔ اس بحران نے آبادی کے کمزور اور نادار طبقوں کی ایک بڑی اکثریت پر غیر معمولی حد تک ناقابل قبول مشکلات مسلط کی ہیں۔ دوسری معزول وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے سخت مزاحمت ہے۔ اُنھوں نے عوام دشمن ہائبرڈ حکومت کے سول ملٹری لیڈروں کو بے نقاب کرنے اور ان پر حملہ کرنے میں فقید المثال جرات دکھائی۔ اس پر انہیں بہت سے پاکستانیوں کی ولولہ انگیز حمایت بھی حاصل ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اہم حصے، مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں اضافہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ، لوکل باڈی اور قومی/صوبائی ضمنی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس سول ملٹری ڈیل کا پول کھلنا شروع ہوگیا ہے جو 2014 میں عمران خان کے پانچ ماہ طویل دھرنے کے آغاز کے ساتھ طے پائی تھی اور جس کی وجہ سے عدلیہ نے نواز شریف کو معزول کیا اور 2018 میں دھاندلی زدہ انتخابات جس کا نقطہ عروج تھے۔ اس کی پہلی علامت سول ملٹری کے ایک صفحے کا دھڑن تختہ ہے جو گزشتہ نومبر میں آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کے تبادلے اور دوسرے کی تقرری کے معاملے پر دکھائی دیا۔ اس نے دونوں کے درمیان اعتماد اور بھروسے کے آئینے میں بال ڈال دیا۔ دوسرا ریاست کے بنیادی اداروں میں ہائبرڈ حکومت کی بلیک میلنگ اور من مانی کے خلاف خاموشی سے تقویت پاتی ہوئی مزاحمت ہے۔ جج حضرات اسیٹبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہو کر بولنے لگے ہیں یہاں تک کہ اپنے کمزور یا سمجھوتہ کرنے والے ساتھیوں کے متعصبانہ فیصلوں سے اختلاف سامنے آرہا ہے۔ اسی طرح بدنام سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جیسے ججوں کو آئینہ دکھایا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بالآخر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وزرا کے دھونس اور دھمکیاں سے مرغوب نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس میں اگلے عام انتخابات میں ممکنہ انتخابی دھاندلی کے لیے استعمال کی جانے والی ای وی ایم متعارف کرانے کی مخالفت بھی شامل ہے۔
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ مزاحمت کے حتمی قدم کے طور پر اب الیکشن کمیشن عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو غیر ملکی ذرائع سے غیر مجاز فنڈز وصول کرنے اور کروڑوں کے غبن کے سلسلے میں قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر نااہلی کے لیے درخواست دینے کے لیے تیار ہے۔ میڈیا نے بھی ہوا کی سمت میں تبدیلی محسوس کرلی ہے۔ مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے حامی اینکروں اور صحافیوں کو یک یکا اپنے عمررسیدہ ہیروکے بارے میں حقائق کا انکشاف ہونے لگا ہے۔ اب اُنھوں نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے ان پر تنقید شروع کردی ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کی ہدایت پر مرکزی دھارے کے میڈیا سے نکال باہر کیے گئے صحافی اب کھل کر بات کررہے ہیں۔ اپنے دشمنوں کی طرف انگشت نمائی کررہے ہیں۔ بلکہ نام لے کر تنقید کررہے ہیں۔ عمران خان کے حامی اور سابق سیاسی وفاداران کی بدعنوانی کی کہانیاں بے نقاب کررہے ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان کے عوام اپنے آئینی حقوق کی بحالی چاہتے ہیں جس میں اپنے سیاسی راہ نما چننے کا حق بھی شامل ہے۔ لہٰذا جتنی جلدی اس ہائبرڈ نظام کو قائم رکھنے والے منصوعی سہارے پیچھے ہٹ جائیں، اتنا ہی انکے اور پاکستان کے لیے بہتر ہوگا تاکہ عوام اپنے قانونی حق کو استعمال کر کے اصل تبدیلی لا سکیں۔