اگر اسرائیل کا نام سوڈان اور امریکا کمپوچیا ہوتا
تحریر:وسعت اللہ خان۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
جو بائیڈن میں کم از کم ایک خوبی ضرور ہے،وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔مثلاً سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس چھاپہ ماروں کی مسلح کارروائی کے دوران لگ بھگ بارہ سو اسرائیلی سویلینز بشمول تین سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور ڈھائی سو کے لگ افراد کو حماس کے چھاپہ مار یرغمال بنا کے اپنے علاقے میں لے گئے۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا۔مگر پھر کردار کش مشنیری حرکت میں آ گئی اور یہ خبر اڑا دی گئی کہ حماس کے چھاپہ ماروں نے اپنی مسلح کارروائی کے دوران کئی خواتین کو ریپ کیا اور لگ بھگ چالیس اسرائیلی بچوں کے گلے کاٹ دیے۔
جو بائیڈن نے اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر سچ مان لیا اور بچوں کے گلے کاٹنے کی خبر کو حماس کی سفاکی سے تعبیر کیا۔حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اور خود وائٹ ہاؤس کی وائٹ واش مشینری بارہا صدرِ ذی وقار کو سمجھانے کی کوشش کر چکی ہے کہ انکل جن چالیس بچوں کے گلے کٹے تھے وہ ماشااللہ آج بھی زندہ ہیں اور جن خواتین کا مبینہ ریپ ہوا تھا ان میں سے ایک بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے انھیں بدنام کرنے کے باوجود سامنے نہیں آئی۔لہٰذا اگر کچھ ایسا ہوا تو ہم سب سے پہلے آپ کو ہی بتائیں گے۔شانت رہیے اور ہماری بریفنگز کے مطابق چلتے رہیے۔
معلوم نہیں کسی نے جو بائیڈن کو یہ جتانے کی بھی کوشش کی ہو کہ چالیس افسانوی بچوں کے گلے کاٹنے اور بارہ سو اسرائیلیوں کی حقیقی موت کے بدلے اسرائیل اب تک انیس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اور ان میں ساڑھے سات ہزار بچے بھی شامل ہیں۔جب کہ اتنے ہی ملبے کے نیچے دبے دبے مر چکے ہیں اور اب ان کی لاشیں تدفین کے قابل بھی نہیں رہیں اور یہ سلسلہ اس لمحے تک جاری و ساری ہے۔
مگر آپ تو جانتے ہیں کہ ایک اسی سالہ بوڑھے کو اپنے ہی مفروضوں کے جال سے نکالنا ایک آٹھ سالہ بچے کو قائل کرنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔بچے کے تو آپ کان مروڑ کے بھی سمجھا سکتے ہیں مگر بوڑھوں کا کیا کریں۔
رہی سہی کسر بائیڈن کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے پوری کر دی جب انھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد پہلی بار تل ابیب پہنچ کر اسرائیلی ہلاکتوں پر نیتن یاہو سے تعزیت کی تو یہ بھی کہا کہ وہ آج امریکی وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور یہودی بھی افسردہ ہیں۔
غزہ کے جاری قتلِ عام کے ساتویں ہفتے میں وائٹ ہاؤس میں یہودی تہوار ہنوکا کے موقعے پر منعقد روایتی تقریب میں بائیڈن نے نکسن کے بعد سے آنے والے ہر صدر کی طرح یہودی مہمانوں کے اجتماع کو یاد دلایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کے طاقتور وجود کا ضامن رہے گا۔
اگر اسرائیل نہ ہوتا تو آج دنیا میں ہر یہودی خود کو غیر محفوظ سمجھتا رہتا۔کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے پینتیس برس قبل سینیٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کو ہم تین ارب ڈالر سالانہ کی جو امداد دے رہے ہیں وہ امریکا کی سب سے بہتر سرمایہ کاری ہے۔میں نے یہ بھی کہا تھا کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا شرط نہیں۔میں صیہونی ہوں۔
دو ہفتے قبل وائٹ ہاؤس کی ہنوکا تقریب میں ان خیالات کے واشگاف اظہار اور اعادے کے بعد اب بھی اگر کسی کو بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی سمجھ میں نہ آئے تو اسے کوئی بھی مثال یہ پالیسی نہیں سمجھا سکتی۔
امریکا نے انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی مخالف بین الاقوامی کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ اس کنونشن میں نسل کشی کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق انسانوں کے کسی نسلی، مذہبی یا قومی گروہ کو جزوی و کلی طور پر مٹانے کے لیے پانچ اقدامات میں سے کوئی بھی قدم نسل کشی کہلائے گا۔
اول۔کسی مخصوص انسانی گروہ کو جان بوجھ کے قتل کیا جانا ، دوم۔اس گروہ کو اجتماعی طور پر شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا ، سوم۔ایسی تادیبی پابندیاں لگانا جس سے ان کی اجتماعی بقا خطرے میں پڑ جائے ، چہارم۔ ان سے حقِ پیدائش چھیننا ، پنجم۔ان کے بچوں کو ان سے الگ کر کے جبراً کہیں اور منتقل کرنا۔
اسرائیل ان پانچ میں سے پہلی تین شرائط پوری کر رہا ہے۔وہ ایک مخصوص علاقے ( غزہ کی پٹی) میں آباد فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر مٹانے کے لیے اندھا دھند بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔اس نے سات اکتوبر سے اب تک جتنا بارود برسایا ہے۔
اس کی اجتماعی قوت ہیروشیما پر پھینکے گئے جوہری بم سے ڈھائی گنا زائد ہے۔خود امریکی سی آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک غزہ پر جتنے بم گرائے گئے۔ ان میں سے پچاس فیصد اندھے یا ان گائیڈڈ بم ہیں۔اندھے بم محضوص ہدف کا تعین کیے بغیر کسی بھی انسان یا عمارت کو ختم کر سکتے ہیں۔اور یہ اجتماعی جسمانی و نفسیاتی نقصان کا سبب ہیں۔
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کے لیے پانی ، خوراک ، بجلی ، ادویات کی ترسیل بند کر رکھی ہے اور اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو جان بوجھ کے تباہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔اس کا ایک ہی مقصد ہے نسل کشی۔نیز ان اقدامات سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ غزہ کی تئیس لاکھ آبادی یہ علاقہ جبراً خالی کر کے جلاوطن ہو جائے۔
بائیڈن انتظامیہ اس نسل کشی میں سب سے بڑی مددگار ہے۔اس نے جنگ بندی کی ہر قرار داد کو ویٹو کر کے اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں سے بچا کے رکھا ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ نہ صرف غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیل کو مسلسل فراہم کر رہی ہے بلکہ کانگریس کو بائی پاس کرکے ہنگامی اختیارات کی آڑ میں اس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو توپوں اور ٹینکوں میں استعمال ہونے والے چودہ ہزار گولوں کی تازہ کھیپ بھی پہنچائی ہے۔
اس سب کے باوجود امریکی ذرایع ابلاغ میں ایک بار بھی یہ لفظ آج تک کسی خبر ، مضمون یا اداریے میں شایع یا نشر نہیں ہو پایا کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔میڈیا میں اگر کوئی جملہ تواتر سے استعمال ہو رہا ہے تو وہ ہے کہ اسرائیل حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے آئین کے مطابق یہ نسل کشی کا سیدھا سیدھا کیس ہے۔مگر معاملہ اگر امریکا اور اسرائیل کا ہو تو سیدھا سیدھا کیس بھی ہکلانے لگتا ہے۔دونوں ممالک انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے دائرہ کار سے منکر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
پھر بھی اگر اسرائیل اور امریکا کا نام سوڈان، لائبیریا ، کمپوچیا یا سربیا ہوتا تو آج جو بائیڈن اور نیتن یاہو دی ہیگ میں کرمنل کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے۔
البتہ یوکرین کے ساتھ اس سے نصف نسل کش سلوک کرنے پر پوتن کے بین الاقوامی وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔اسی لیے ولادی میر پوتن گرفتاری کے ڈر سے کسی ایسے ملک میں نہیں جا سکتے جو انھیں گرفتار کر کے انٹرنیشنل کرمنل
کورٹ میں پیش کرنے کا پابند ہو۔