آرمی چیف کی ملازمت میں توسيع کا قانون ختم کریں گے

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ نون نے آرمی چيف کی ملازمت میں توسيع کا قانون فوج کی عزت کی خاطر پاس کروايا تھا مگر ایسا کرنا غلط تھا اور اس قانون کو ختم کیا جانا چاہئے ورنہ ہم سوبارہ برسر اقتدار آکر اس قانون کو ختم کر دیں گے۔ شاہد خاقان کا کہنا ہے کہ آرمی چيف کی توسيع سے متعلق قانون ميں تبديلی درست نہيں، اور ایسی روایت ڈالنا غلط ہے کیونکہ اس سے درجنوں سینئر موسٹ جرنیلوں کی سنیارٹی کا حق متاثر ہوتا ہے۔
یہ بات انہوں نے سماء ٹی وی کے ایک پروگرام میں گفتگو میں کرتے ہوئے کہی۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز لیگ اقتدار میں واپس آکر آرمی چيف کی توسيع کا قانون ختم کرے گی اور اس میں فوج بھی اس کا ساتھ دے گی۔ یاد رہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو وزیراعظم عمران خان نے ان کے عہدے کی معیاد ختم ہونے پر تین سال کی توسیع دی تھی جسکے لیے قومی اسمبلی سے ایک قانون پاس کروایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے علاوہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نواز بھی اور پیپلز پارٹی نے بھی اس قانون کو پاس کروانے کے حق میں ووٹ دیے تھے۔ تاہم اب شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اس قانون کو پاس کروانا غلط تھا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملک میں غیر آئینی مداخلت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے مداخلت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی بیساکھياں ہٹيں گی تو ہی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحريک عدم اعتماد کامياب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں حکومتی اتحادیوں نے مشکل سے حکومت کے حق میں ووٹ دیا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کے حالات اب کس قدر پتلے ہو چکے ہیں۔
جبری گمشدگیوں میں ریاست ملوث ہو تو انصاف کون دے گا؟
چودھری نثار سے متعلق شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جو شخص مشکل وقت میں پارٹی کیساتھ نہ ہو اس کی پڑٹی میں قبولیت مشکل ہوتی ہے۔ انہیں پارٹی سے اختلاف ہوگا، پارٹی کسی سےاختلاف نہیں رکھتی۔
رہنما ن لیگ کا کہنا تھا کہ چوہدری نثارکی ن لیگ میں واپسی کا امکان بہت کم ہے مگر جہانگير خان ترين مستقبل میں ن ليگ کا حصہ بن سکتے ہيں۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رہنما پیپلزپارٹی لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی توسیع پر ہمارے تحفظات تھے، اداروں میں کسی فرد کی توسیع نہیں ہونی چاہیے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی آئینی ترمیم نہیں تھی، مسلم لیگ ن کو مشاورت کرنی چاہیے تھی، انہوں نے لندن سے بیٹھ کر ہی اسکی حمایت کردی۔ چنانچہ جب سب جماعتوں نے توسیع پر اتفاق کیا تو ہم نے بھی اتفاق کر لیا کیونکہ تب کے حالات میں قومی اتفاق رائے کی ضرورت تھی۔