کیا کوئٹہ میں دفن کردہ 13 لاشیں واقعی بلوچ دہشتگردوں کی تھیں ؟

کوئٹہ میں واقع کاسی قبرستان میں سرکاری حکام کی جانب سے چند روز پہلے رات کی تاریکی میں لا کر دفن کی جانے والی 13 لاشوں کے حوالے سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ جس خفیہ انداز میں لاشوں کی اندھیرے میں تدفین کی گئی وہ ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ یہ لاپتہ بلوچ افراد کی لاشیں تھیں جن کو جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ یہ لاشیں ان سفاک دہشتگردوں کی تھیں، جو جعفر ایکسپریس کے اغوا اور مسافروں کے قتل عام کے بعد بولان کے علاقے مشکاف میں ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران مارے گئے تھے۔

یاد رہے کہ 11 مارچ 2025 کو بلوچ علیحدگی پسندوں نے ایک مسافر ٹرین پر حملہ کر کے اسے یرغمال بنا لیا تھا اور اس میں سوار 26 افراد، بشمول 18 فوجی اہلکاروں کو بیدردی سے قتل کر دیا تھا۔ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی میں 33 شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعوی کیا تھا۔ ٹرین حملے کے بعد سکیورٹی اداروں کی جانب سے بلوچ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ بی بی سی کی ایک ٹیم نے 13 لاشوں کی تدفین کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کے بعد کاسی قبرستان کا دورہ کیا اور متعلقہ حکام سے حقائق جاننے کی کوشش کی۔

اس حوالے سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں قبروں کے ساتھ تابوتوں کے ٹکڑے بھی پڑے ہوئے تھے اور ایک شخص یہ دعوی کر رہا ہے کہ ان لاشوں کو سرکاری گاڑی میں لا کر تدفین کی گئی۔ ایک اور ویڈیو میں قبروں میں دفن میتوں کے کفن بھی دیکھے جا سکتے تھے، تاہم ان دونوں ویڈیوز کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی۔ جب بی بی سی کی ٹیم قبرستان پہنچی تو وہاں 13 ایسی کچی قبریں موجود تھیں جو مٹی کا ڈھیر معلوم ہوتی تھیں۔ بلوچستان میں نامعلوم افراد کی قبروں پر جس طرح پلیٹیں اور نمبر لگائے جاتے ہیں وہ بھی موجود نہیں تھے۔ باوردی دو پولیس اہلکار ان قبروں کے پاس کھڑے تھے جبکہ قریب ہی مزید چند اہلکار موجود تھے۔ وہاں موجود ایک بزرگ قبروں پر مٹی ڈال کر ان کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اگلے روز نہ صرف وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں وفاقی وزرا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی بلکہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی جعفر ایکسپریس پر حملے  کے بعد مارے جانے والے ان دہشت گردوں کے بارے میں بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لاشیں ان شدت پسندوں کی ہیں جو ٹرین حملے کے بعد جوابی فوجی آپریشن میں مارے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہمارے پاس دو آپشن تھے۔ ایک یہ کہ ہم ان لاشوں کو وہیں چھوڑ دیتے لیکن یہ ہماری قانونی ذمہ داری تھی کہ ہم ان لاشوں کو لے آئیں، ان کا ڈی این اے کروائیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ یہ کون لوگ تھے جو ریاست پاکستان سے لڑ رہے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ان لاشوں کو ایدھی فاونڈیشن کے حوالے کیا گیا، جنھوں نے ہر لاش کے ساتھ ایک پلیٹ اور ایک نمبر لگا کر انہیں امانتاً دفن کیا تاکہ ’اگر کسی کی شناخت ہوتی ہے اور اسے کوئی لے جانا چاہے تو لے جا سکے۔ بگٹی کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی شناخت ممکن نہیں تھی لہٰذا ہم نے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا اور پھر ایدھی فاونڈیشن کے ذریعے قانونی طریقے سے دفنایا۔

تاہم بی بی سی نے جب کوئٹہ میں ایدھی فاؤنڈیشن کے نمائندے سے رابطہ کیا تو اس نے وزیراعلیٰ کے دعوے کو مسترد کیا اور کہا کہ نہ تو یہ لاشیں ان کے حوالے کی گئیں اور نہ ہی انھوں نے اِن کی تدفین کی ہے۔ اس سے پہلے سرفراز بگٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہم ان لاشوں کو وہاں چھوڑ دیتے تو لاپتہ افراد کی فہرست میں مزید اضافہ ہو جانا تھا۔ وہ لوگ جو آج ریاست پاکستان سے لڑ رہے ہیں ان کی لاشوں کو لائیں تب بھی ایشو ہے اور نہ لائیں تب بھی ایشو ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر کسی لاش کی شناخت ہوتی ہے تو قانونی طریقے سے اہلخانہ لے سکتے ہیں لیکن ریاست پاکستان کا آئین اور قانون ریاست پاکستان کے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کی تعریف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘

اس حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت کے بقول یہ لوگ شدت پسند تھے تو ان کی تدفین کے حوالے سے قانونی طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا اور لاشوں کو اندھیرے میں دفن کیوں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اندھیرے میں ان لوگوں کی تدفین سے ہمارے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ افراد پہلے سے جبری طور لاپتہ کیے گئے تھے جن کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کاسی قبرستان میں جن لاشوں کو پولیس کی جانب سے دفنایا گیا ہے ہم ان کی قبر کشائی کر کے ساری لاشیں نکلوائیں گے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر دعویٰ بھی کیا گیا کہ 23 نامعلوم افراد کی لاشیں کوئٹہ لائی گئی ہیں اس لیے لاپتہ افراد کے رشتہ دار ان کی شناخت کے لیے سول ہسپتال پہنچیں۔

18 مارچ کو ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’فورسز نے آج 23 مسخ شدہ لاشیں سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کی ہیں۔ فورسز کا دعویٰ ہے کہ یہ مقابلے میں مارے گئے ہیں لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لاشیں جبری لاپتہ افراد کی ہو سکتی ہیں اس لیے لاپتہ افراد کے لواحقین ان لاشوں کو دیکھنے کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ ضرور جائیں۔ اس بیان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر لوگوں کی بڑی تعداد سول ہسپتال کوئٹہ میں جمع ہوئی اور مطالبہ کیا کہ لاشوں کی شناخت کی اجازت دینے کے علاوہ انھیں ان کے حوالے بھی کیا جائے۔ بی بی سی کی ٹیم جب سول ہسپتال کوئٹہ پہنچی تو پولیس سرجن تو دفتر میں موجود نہیں تھیں، تاہم وہاں ہسپتال کے دو اہلکاروں نے بتایا کہ ’جن 23 افراد کی لاشوں کی آپ بات کر رہے ہیں انھیں سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانہ میں لایا ہی نہیں گیا تھا۔‘

دہشت گردی خاتمے کےلیے کہیں بھی آپریشن ہوسکتا ہے : عرفان صدیقی

ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ تین روز قبل 23 افراد کی لاشیں کوئٹہ ضرور لائی گئی تھیں لیکن وہ سول ہسپتال نہیں لائی گئیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’یہ 23 لاشیں گرمی کی وجہ سے خراب ہو چکی تھیں۔ نہ صرف یہ ناقابل شناخت تھیں بلکہ زیادہ دیر گرمی میں پڑے رہنے کی وجہ سے ان میں کیڑے بھی پڑ گئے تھے۔ تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان لاشوں میں سے 13 کی تدفین کاسی قبرستان میں ہوئی تو باقی 10 لاشیں کہاں گئیں۔ سول ہسپتال کوئٹہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب احتجاج ہوا تو مردہ خانے میں صرف ان 5 حملہ آوروں کی لاشیں موجود تھیں جنھیں جعفر ایکسپریس پر حملے میں مارے جانے والے مسافروں کے ساتھ سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانہ میں لایا گیا تھا۔ اہلکار کے مطابق موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کے مطالبے کے باوجود انھیں یہ لاشیں دینے سے انکار کیا تو لوگ مشتعل ہو گئے اور دروازہ توڑ کر پانچوں لاشیں لے گئے۔

Back to top button