جنرل مشرف نے کشمیر میں آپریشنز بند کر کے کتنی بڑی غلطی کی؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں بین الاقوامی دباؤ کے زیر اثر جموں کشمیر میں پاکستانی سپانسرڈ خفیہ آپریشنز بند کرنے کے بعد سے بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” دباؤ سے نکل چکی ہے اور کھل کر پاکستان مخالف دہشت گردوں کو سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971میں جانا پڑے گا جب پاکستان دو حصوں میں تقسیم تھا‘ مغربی پاکستان موجودہ پاکستانی علاقوں پر مشتمل تھا جب کہ آج کا بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا‘ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان بھارت تھا‘ دوسرا بھارت نے تقریباً تین سائیڈ سے مشرقی پاکستان کو گھیر رکھا تھا‘ اندرا گاندھی نے شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ سیاسی تعلقات بڑھائے‘ انہوں نے مکتی باہنی بنوائی‘ پھر مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی سٹارٹ کرائی اور آخر میں اپنی فوجیں بھجوا کر پاکستان توڑ دیا۔ یہ پاکستان اور اسکی فوج کے دل پر بہت بڑا اور گہرا زخم تھا‘ چنانچہ مارشل لگا کر بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے 1980کی دہائی میں اس چوٹ کا بدلہ لینا شروع کر دیا۔

 جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا نے سکھ علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کیا اور مشرقی پنجاب میں خالصتان کی تحریک شروع ہو گئی‘ تحریک کا پیٹرن بنگلہ دیش جیسا تھا‘ جنرل ضیاء الحق نے اندرا گاندھی کو یقین دلا دیا کہ آپ نے جس طرح 1971 میں پاکستان توڑا بالکل اسی طرح ہم خالصتان بنا کر بھارت توڑ دیں گے‘ اندرا گاندھی کو یہ بھی باور کرا دیا گیا اگر بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نہیں بچے تو بھارت میں تم بھی نہیں بچو گی، چناں چہ اگر آپ 1980 اور 1990کی دہائی کے بھارت کا مطالعہ کریں تو آپ کو پورا ہندوستان جلتا‘ ٹوٹتا اور بکھرتا نظر آئے گا اور یہ اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بنگلہ دیش کا جواب تھا۔ اگر جنرل ضیاء الحق کوچند سال مزید مل جاتے تو خالصتان بھی بن جاتا اور انڈیا بھی ٹوٹ کر بکھر چکا ہوتا لیکن بھارت کی قسمت اچھی تھی کہ جنرل ضیا ایک طیارہ حادثے میں جل کر بھسم ہو گئے اور پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔

اس دوران امریکا بھی افغانستان سے چلا گیا اور یہ ملبہ بھی پاکستان پر گر گیا چناں چہ پاکستان بھارت پر زیادہ توجہ نہ دے سکا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے تک پاکستان نے کسی نہ کسی حد تک بھارت کو مصروف رکھا تھا لیکن پھر نائن الیون کا واقعہ ہو گیا اور پاکستان امریکا کے دباؤ میں آ گیا‘ جنرل مشرف نے اس دباؤ میں ایک بڑی غلطی کر دی‘ اس نے انڈیا اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تمام پاکستان سپانسرڈ  آپریشنز بند کر دیے‘ پاکستان کو اس کے دو بڑے نقصان ہوئے‘ بھارت بے خوف ہو گیا کیوں کہ اس سے قبل کسی بھی قسم کی گڑبڑ کے بعد پاکستان بھارت میں اس کا جواب دیتا تھا اور اس سے انڈیا کی معیشت اور ساکھ کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچتا تھا‘ جنرل مشرف کے دور میں جواب دینے کا یہ سلسلہ رک گیا اور بھارت کو پاکستان میں یک طرفہ کارروائیوں کا موقع مل گیا۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دشمن کا دشمن دوست اور ہمسائے کا ہمسایہ دشمن ہوتا ہے‘ یہ ’’سنہری اصول‘‘ بھارت کی وزارت خارجہ کی مین فلاسفی ہے، چناں چہ انڈیا نے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا‘ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں افغانستان میں بھارت کے 28 مشنز اور دفاتر تھے‘ ان میں را کے افسر بھرے تھے‘ ہمارے تعلقات اس زمانے میں ایران کے ساتھ بھی اچھے نہیں تھے‘ بھارت نے اس کا فائدہ اٹھایا اور چاہ بہار‘ بندر عباس اور تفتان میں اپنے ٹھکانے بنا لیے‘ یہ لوگ وہاں سے دو کام کر رہے تھے‘ ایک یہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں دھماکے کرتے تھے اور دوسرا انھوں نے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا رجحان پروان چڑھانا شروع کر دیا‘ را نے افغانستان اور ایران کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کو رقم بھی دی‘ ٹریننگ بھی اور ٹیکنالوجی بھی‘ اس سے پاکستان کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔

سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ جب 2007 میں لال مسجد اسلام آباد میں ہونے والے فوجی آپریشن کی رد عمل میں تحریک طالبان پاکستان بنی تو بھارت نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس نے کے پی کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں عملاً ریاست کی رٹ ختم کر دی۔ مولانا فضل الرحمن نے اس زمانے میں قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دعویٰ کیا تھا دہشت گرد اسلام آباد سے چند کلو میٹر دور رہ گئے ہیں‘ بہرحال 2007 سے 2013 تک جنرل کیانی کے دور میں آپریشن زلزلہ‘ آپریشن صراط مستقیم‘ آپریشن شیردل‘ آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم‘ آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات جیسے فوجی آپریشن ہوئے اور پاکستان نے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کر کے ریاست کی رٹ بحال کر دی‘ اس دوران بلوچستان میں بھی بڑی حد تک حالات ٹھیک کر دیے گئے‘ حالات کی اس درستگی میں میاں نواز شریف کا بھی بہت ہاتھ تھا‘ میاں صاحب کے بی جے پی کی قیادت یعنی اٹل بہاری واجپائی اور بعدازاں نریندر مودی سے بہت اچھے تعلقات تھے‘ انھوں نے دونوں کو راضی کر لیا اور یوں پاکستان میں دہشتگردی کے پروجیکٹس رک گئے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ عمران خان کی آمد کے ساتھ پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات خراب ہو گئے‘ بھارت ان حالات کی بنیاد پر یہ سمجھ بیٹھا پاکستان میں جان ختم ہو گئی چناں چہ اس نے 26 فروری 2019 کو بالاکوٹ میں سرجیکل آپریشن کر دیا‘ پاکستان نے 24 گھنٹوں میں جواب دیا اور بھارت کے تین طیارے گرا دیے‘ ایک طیارے کا ملبہ پاکستان میں گرا اور اس کا پائلٹ ابھے نندن گرفتار ہو گیا جس کے بعد وہ بھارت جو خود کو مستقبل کی سپر پاور سمجھتا تھا اس کی پوری دنیا کے سامنے دھوتی کھل گئی‘ بھارت اعلان جنگ نہیں کر سکا کیوں کہ اسے دنیا کے کسی ملک سے سپورٹ نہیں ملی اور دوسرا اسے مس ایڈونچر کی وجہ سے ایٹمی جنگ کا خطرہ تھا، تاہم یہ اپنی چوٹ بھلا نہ سکا لہٰذا اس نے کے پی اور بلوچستان میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔

کیا دہشتگردی مخالف اجلاس میں شرکت نہ کر کے PTI نے صحیح کیا ؟

اس دوران "را” نے سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا‘ بلوچستان میں نوکریاں اور انفرااسٹرکچر کم زور ہے اور اس کے ذمے دار کرپٹ بلوچ سردار ہیں‘ انھوں نے اپنے عوام پر پیسہ خرچ نہیں کیا تھا‘ بلوچستان میں تعلیم بالخصوص خواتین میں تعلیم کا رجحان بڑھ گیا تھا مگر نوجوانوں کے لیے نوکریاں نہیں تھیں جس کی وجہ سے نوجوان ریاست کے ساتھ ناراض تھے‘ بھارت نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس ناراضگی کو فوج‘ وفاق اور پنجاب سے نفرت میں تبدیل کر دیا‘ دنیا کی تمام بڑی سوشل میڈیا ایپس کے سی ای اوز بھارتی ہیں‘ مشرق وسطیٰ کے چیپٹرز بھارت سے آپریٹ ہوتے ہیں یا پھر سنگا پور سے اور ان میں بھارتی بیٹھے ہیں‘ انھوں نے ناراض بلوچ نوجوانوں اور خواتین کو ہیرو بنانا شروع کر دیا‘ یہ جو بھی ریاست مخالف وڈیو بناتی تھیں اسے وائرل کروا دیا جاتا تھا، لہٰذا بلوچ خواتین دنوں میں مشہور ہو جاتیں‘ ماہ رنگ بلوچ اس کی بہت بڑی مثال ہے۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ دوسری طرف بھارت نے نوجوانوں کو عسکری ٹریننگ دینا شروع کر دی‘ اور افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ٹریننگ کیمپس اور ٹھکانے بنا دیے گئے‘ جن کا نتیجہ آج پاکستان خوفناک دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہا ہے۔

Back to top button