تحریک انصاف نے اب کرنا کیا ہے ؟
تحریر : نصرت جاوید
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت
کئی دوست ذات کے رپورٹر سے ’’کالم نگار‘‘ ہوئے اس خطا کار سے خفا ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ مقامی سیاست کے بارے میں ’’چوندی چوندی‘‘ خبریں ڈھونڈ کر ان پر تبصرہ آرائی کے بجائے میں کئی دنوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس واپسی کے بارے میں مختلف زاویوں سے لکھتے ہوئے ’’ڈنگ ٹپا‘‘ رہا ہوں۔ شکوہ دوستوں کا بجا ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب پر توجہ مگر میں نے بلاجواز مرکوز نہیں رکھی۔ فی الوقت دنیا کی واحد سپرطاقت ہوتے ہوئے امریکہ کا ٹرمپ جیسا روایت شکن صدر ایسے بے تحاشہ رحجانات متعارف کرواسکتا ہے جو پاکستان جیسے ملکوں پر دور رس اثرات کے حامل ہوں گے۔ ان پر نگاہ رکھنا لہٰذا لازمی ہے۔ رہی بات مقامی ’’سیاست‘‘ کی تو میرا نہایت سنجیدگی سے سوال یہ ہے کہ ’’شہر جاناں‘‘ میں ’’سیاست‘‘ کرکون رہا ہے۔
’’سیاست‘‘ کے لئے ’’سیاسی جماعتیں‘‘ درکار ہوتی ہیں۔ ان جماعتوں کی چند ترجیحات ہوتی ہیں۔ ان ترجیحات کو میری جوانی میں ’’نظریہ‘‘ اور ان دنوں ’’بیانیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ نظریہ یا بیانیہ اصولی طورپر سیاسی کارکنوں کو نہایت سوچ بچار کے بعد مرتب کرنا چاہیے۔ اس کے حصول کے لئے سچ مچ کے جمہوری ملکوں میں سالانہ کنونشن ہوتے ہیں۔ بسااوقات یہ کئی دنوں تک جاری رہتے ہیں۔ ان کے دوران تندوتیز مباحثوں کے بعد کوئی سیاسی جماعت کھل کر یہ اعلان کرتی ہے کہ اسے اگر عوام نے ووٹ دے کر اقتدار میں بٹھایا تو وہ فلاں فلاں معاملات پر توجہ مرکوز کرے گی۔
’’سیاست‘‘ کی جس نوع کامیں ذکر کررہا ہوں وہ ہمارے ہاں عملی طورپر کبھی متعارف ہی نہیں ہوئی۔ برطانوی سامراج کو یہاں کی ’’رعایا‘‘ کو قابو میں رکھنے کے لئے مقامی اشرافیہ سے چند نمائندے درکار تھے۔ ان کے حصول کے لئے بالغ رائے دہی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے ’’انتخاب‘‘ کروائے جاتے تھے جن میں ووٹ ڈالنے کا حق معاشرے کے محدود ترین افراد کو نصیب ہوتا۔ بالغ رائے دہی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے انتخابی نظام کی بدولت شہری اور دیہی اشرافیہ کے جی حضوری افراد ہی نام نہاد اسمبلیوں تک پہنچتے اور عموماََ ’’سرکار‘‘ سے اپنے علاقوں میں سڑک، پانی اور بجلی جیسے مسائل کے بارے میں فنڈز کے طلب گار رہتے۔ ’’منہ کا ذائقہ‘‘ بدلنے کے لئے کبھی کبھار مقامی حکومتوں کو لتاڑنے کے لئے مذمتی تقاریر بھی کردی جاتیں۔
سامراجی آقائوں کے مرتب کردہ ’’بندوبستِ حکومت‘‘ کے برعکس سامراج مخالف تحاریک تھیں۔ ہمارے ہا ں ان تحاریک نے اکثر متشدد رویہ اختیار کیا۔ ریاستی جبر سے انہیں کچل ڈالا گیا ہے۔ مجلس احرار اور دیوبند کے دارلعلوم سے وابستہ افراد اگرچہ پرامن رہتے ہوئے بھی جوشیلی تقریروں کی وجہ سے اکثر ’’باغی‘‘ ٹھہراکر جیلوں میں بند کردئیے جاتے۔ جی حضوری سیاست کی عادی ہوئی کانگریس مگر جب گاندھی کے زیر اثر آئی تو وہ ’’عدم تشدد‘‘ کی بنیاد پر مزاحمتی تحاریک چلاتے ہوئے ’’مہاتما‘‘ ہوگیا۔ وہ ’’مہاتما‘‘ ہوا تو جواہر لعل نہرو جیسے افراد کو ’’دنیاوی‘‘ سیاست چلانے کے لئے آگے بڑھادیا۔ کانگریس مگر تمام تر کاوشوں کے باوجود مسلمانوں کی کثیر تعداد کو اپنے ساتھ ملا نہیں پائی۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم مسلمانوں کے لئے اس کے متبادل کے طورپر ابھرے۔ انہوں نے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر متحرک کیا۔ اس کے نتیجے میں قیام پاکستان تو ہوگیا مگر متحرک ہوئے افراد سیاسی تنظیموں میں منظم نہ ہوپائے۔
سیاسی ارتقاء کو قیام پاکستان کے بعد وقت دینے کے بجائے 1958ء میں ایوب خان ’’دیدہ ور‘‘ کی صورت ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے سے ابھرے۔ ان کے ابھرنے اور زوال کے بعد تمام تر اونچ نیچ کے باوجود ’’بندوبستِ حکومت‘‘ طے کرنا اب بھی مذکورہ ادارے ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس کا متبادل تلاش کرنے کی کسی سیاسی رہ نما نے سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کی۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تین بار منتخب ہوئے وزیر اعظم سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہل ہوجانے کے بعد اپنی جماعت کو قمر جاوید باجوہ کی معیادِ ملازمت میں تین سال بڑھانے کا حکم صادر کرتے ہیں اور کئی برسوں تک لندن ہی میں مقیم رہتے ہیں۔
وہ لندن میں تھے تو کرکٹ کی بدولت کرشمہ ساز ہوئے عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس پہنچ کر ’’ان‘‘ کے ساتھ ’’سیم پیج‘‘ پر لڈیاں ڈالنا شروع کردیں۔ اکتوبر2021ء میں لیکن سرپرستوں کو خفا کربیٹھے۔ وہ خفا ہوئے تو اپریل 2022ء آگیا۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی۔ شہباز شریف وزارت عظمیٰ پر براجمان ہوگئے۔ ہماری سیاسی روایات کے عین مطابق اقتدار سے معزول ہوجانے کے بعد سابق وزیر اعظم ان دنوں جیل میں ہیں اور مختلف مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہیں نام نہاد القادر ٹرسٹ کے تحت چودہ سال قیدکی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کی اہلیہ کو بھی شریک جرم ٹھہراکر سات سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔
اقتدار سے فراغت کے بعد تحریک انصاف کو یقینا ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس جبر کا سامنا کرنے والوں سے ہمدردی کا اظہار کھل کر نہ بھی کریں تو کم از کم دل میں ضرورمحسوس کرنا چاہیے۔ انتہائی خلوص سے ہم دردی محسوس کرتے ہوئے بھی لیکن مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ اب تحریک انصا ف نے کرنا کیا ہے۔اصولی طورپر اسے کامل توجہ قبل از وقت انتخاب کے حصول پر مرتکز رکھنا چاہیے۔ فرض کیا انہیں وہ انتخاب مل گئے تو عمران خان نظر بظاہر گج وج کے ساتھ اسی طرح وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ سکتے ہیں جیسے حال ہی میں ٹرمپ وائٹ ہائوس لوٹا ہے۔ ٹرمپ وائٹ ہائوس لوٹنے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کو معاف کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں۔ عمران خان کے مخالفین کو بھی ان سے اقتدار میں واپسی کے بعد ’’معافی‘‘ کی امید نہیں۔ ’’بداعتمادی‘‘ نے سیاسی عمل کو جامد کررکھا ہے۔ اس کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں؟
اسی طرح
سنجیدہ معاملات کے متوازی ’’کامیڈی تھیٹر‘‘ بھی چل رہا ہے۔ تحریک انصاف ان دنوں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بجائے ’’آئین کی بالادستی‘‘ کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس بالادستی کو ’’یقینی‘‘ بنانے کے لئے مگر عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے چیئرمین ہوئے بیرسٹرگوہر نے پشاور میں ہماری ریاست کے طاقتور ترین ادارے کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے بعد سے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلسل شورشرابا مچارکھا ہے۔ ’’اردلی کی حکومت‘‘ سے اب مذاکرات کی اسے ضرورت نہیں۔ ’’پیا‘‘ کو ایک بار پھر رجھانامقصود ہے۔ میں ان کے لئے خیر کی دعا ہی مانگ سکتا ہوں۔