ریاست کو دھمکیاں دینے والے گنڈاپور کا کیا انجام ہونے والا ہے؟
تحریک انصاف نے ملک کو شرپسندی اور انتشار کا شکار کرنے کیلئے ایک بار پھر سانحہ 9 مئی کی طرح کی سازش رچانے کی پلاننگ شروع کر دی ہے۔وزیر اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے ریاستی اداروں کو دھمکیاں اور ایک کی بجائے 19 گولیاں چلانے کا بیان اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے 5 اکتوبر کو ہر صورت ڈی چوک میں احتجاج کرنے کی ہدایات اسے سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کے بعد عمران خان کی جیل سے رہائی کی تھوڑی بہت امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔
تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے جذباتی اور دھمکی آمیز بیانات اور پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟ اور کیا ایسے احتجاجی مظاہروں اور تقاریر سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی ممکن ہے؟
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہھ کہ پاکستان تحریک انصاف جتنا پر امن رہے گی اتنا اچھا ہے۔ جتنا زیادہ تشدد کریں گا۔ اتنا ہی نقصان ہوگا۔ 9 مئی کے تشدد کا حال ہم سب کے سامنے ہے کہ کتنا نقصان ہوا۔ اگر پھر سے اس طرح کا کوئی واقع دوبارہ ہو جاتا ہے۔ تو حکومت کو انہیں مزید دبانے کا موقع مل جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد اگر آئینی ترامیم بھی منظور ہو جاتی ہیں۔ تو پی ٹی آئی اگلے چند ماہ میں جس تبدیلی کی توقع کر رہی تھی، اس کا چانس بالکل ختم ہو جائے گا۔سہیل وڑائچ کے مطابق کوئی معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے۔ ورنہ یہ نظام چل پڑا ہے۔ اور اب یہ خطرات اور خدشات سے نکل آئے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر آئینی ترمیم بھی ہو جاتی ہے، تو اس حکومت کو اب کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تاہم سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی کے مطابق عمران خان کی جانب سے ہی یہ کہا گیا کہ جلسے جلوس نہیں کرنے اب بس احتجاج کرنے ہیں۔ تو جس قسم کا احتجاج کیا گیا۔ اس سب کے بعد انہیں احتجاج کی کوئی بھی اجازت نہیں دے گا۔ ٹیئر گیس، لاٹھی چارج وغیرہ اس قسم کے احتجاج میں ہوتا ہے۔ اس لیے اگر پی ٹی آئی اگر اس نیت سے آئے گی کہ ہم نے تو جنگ لڑنی ہے انقلاب لانا ہے۔ اس طرح کا احتجاج کہیں بھی قابل قبول نہیں ہوتا۔ اس طرح کے احتجاج کا فائدہ قطعی طور پر نہ پی ٹی آئی کو ہوگا، نہ عمران خان کو اور نہ ہی علی امین گنڈا پور کو ہوگا۔ دنیا میں کوئی بھی ملک اس قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کیونکہ آپ جمہوریت اور پُر امن احتجاج کے نام پر جو کر رہے ہیں، جو کہہ رہے ہیں۔ وہ کہیں بھی قابل قبول نہیں ہوتا۔اس حوالے ان کا مزید کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور جس قسم کی باتیں کر رہے ہیں، علی امین گنڈا پور بھی شاید چیف منسٹر کے پی نہ رہ سکیں۔ اور صوبے میں جو ان کی حکمرانی ہے ان سے چھن بھی سکتی ہے۔ کیونکہ جس قسم کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، میرا نہیں خیال کہ عدالت بھی نظر انداز کر سکتی ہے۔کیونکہ اس قسم کی دھمکیوں کے بے حد سنگین نتائج ہوتے ہیں۔
تاہم سینیئر تجزیہ کار ارشاد عارف نے کہا کہ علی امین گنڈا پور جس قسم کے دھمکی آمیز قسم کے لہجے میں بات کرتے ہیں وی کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ گنداپور کو بطور وزیر اعلی خیبرپختونخوس اپوزیشن اور حکومت کے درمیان یا اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل بننا چاہیے۔ اس کے علاوہ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو بھی غلط فہمیاں ہیں، اسے دور کرنا چاہیے۔ تاہم گنڈاپور اپنے رویے س اپنی، صوبے اور پارٹی تینوں کی مشکلات بڑھا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج سے عمران خان یا پارٹی کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہے۔ ماضی میں اس طرح کی مزاحمتی تحریکوں کا فائدہ اور نقصان دونوں ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنا ہے تو آئین پر سب کو عمل کرنا ہوگا، اور آئین نے عام شہری کو جو حقوق دیے ہیں، ان کا احترام کرنا ہوگا۔
تاہم دوسری جانب وفاقی حکومت نے شرپسند یوتھیوں کا مکمل بندوبست کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جلسوں میں ریاست مخالف تقاریر کرنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف شکنجہ کسنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ابتدائی طور پر اسلام آباد جلسے میں اداروں کیخلاف تقاریر کرنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں بغاوت کا مقدمہ درج کروانے پر غور شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے 8 ستمبر کو اسلام آباد میں واقع علاقے سنجگانی میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں کی گئی تقاریر پر ایکشن لینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت تقاریر کرنے والے رہنماؤں کے خلاف بغاوت کے مقدمے درج کیے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے وزارت قانون کی وساطت سے بغاوت کا مقدمہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 196 کے تحت درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،قانونی ماہرین کے مطابق آئین کی یہ شق نہ صرف ناقابل ضمانت ہے بلکہ اس شق کے تحت درج مقدمے میں گرفتاری کیلیے پولیس کو کسی قسم کے وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔
ذرائع کے مطابق وزارت قانون اوروفاقی پراسیکیوٹرجنرل کے بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے فیصلے کی توثیق کرنے کے بعد اس حوالے سے باقاعدہ وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی اور پھر پی ٹی آئی قیادت کے خلاف درخواست دی جائے گی جس پر یوتھیے رہنماؤں کیخلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا جائے گا۔