خصوصی کمیٹی کے منظور کردہ متفقہ مسودے میں نیا کیا ہے؟

آئینی ترمیم کے حوالے سے قائم پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے منظور کیے جانے والے مسودے کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں

پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں منظور کئے گئے متفقہ مسودے میں آئینی ترمیم کا بل 56 سے کم کر کے 26 ترامیم تک محدود کر دیا گیا ہے۔
مجوزہ بل کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی جائے گی جبکہ چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے تین رکنی پینل میں سے پارلیمانی کمیٹی عمل میں لائے گی۔
جمعہ کو پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں منظور کیے گئے مسودے کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تقرری تین سال کے لیے ہو گی جبکہ تقرری سنیارٹی کی بجائے تین رکنی پینل میں سے ہو گی۔ چیف جسٹس کی تقرری 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق سپریم کوٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے۔ آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہو گے اور عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس سے سُومو نوٹس لینے کا اختیار ختم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے۔
آئینی ترامیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں آرٹیکل 184 میں ترمیم تجویز کی گئی جس کے مطابق چیف جسٹس سے سُومو نوٹس لینے کا اختیار ختم کیا جائے گا، جبکہ آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کر سکتا ہے۔
آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی مدت تین سال ہو گی۔ چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے اگرچہ 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بن گئے تو تین سال کے بعد عہدے سے ریٹائر ہونا ہوگا۔
چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ یہ خصوصی کمیٹی 12 اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گی جس میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چار سینیٹ سے لیے جائیں گے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے سینیئر ترین تین ججز میں سے ایک جج کا بطور چیف جسٹس تقرر کرے گی جبکہ چیف جسٹس تعیناتی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہو گا۔

آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل عمل میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے۔ ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہو جائیں گے۔ تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گا۔ آرٹیکل 209 میں مجوزہ ترمیم کے تحت عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہو گی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ، جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے جبکہ چار سینیئر ترین ججز اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے سینیئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں چار اراکین پارلیمنٹ بھی ہوں گے جو دو قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے لیے جائیں گے۔ یہ چاروں ارکان حکومت اور اپوزیشن سے ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم تجویز کرے گا جبکہ اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرے گا۔
حکومت کی جانب سے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے جس کے تحت جوڈیشل کمیشن جو صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔

مجوزہ ترمیم کے تحت حکومت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق چار میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت صدر مملکت، کابینہ اور وزیراعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز کے تحت پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار کیا جائے گا۔ تاہم پارٹی سربراہ اْس کے بعد کارروائی کا مجاز ہو گا۔
آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کر سکیں گے۔

 

Back to top button