عمران کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا کیا خوفناک انجام ہونے والا ہے؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان نے اپنی خالق طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کا اختتام عمران خان کے بھیانک انجام کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا کیوں کہ دوسرا فریق کوئی شخص نہیں ہے بلکہ ملک کا سب سے منظم ادارہ ہے، لہذاعمران خان اور پی ٹی آئی اس جنگ میں شکست کھا کر ایک دن غائب ہو جائے گی لیکن فوج کا ادارہ قائم رہے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چودھری کہتے ہیں کہ میں بار بار عرض کرتا آ رہا ہوں‘ یہ ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتا اور جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتا، لیکن عمران خان اپنی خالق فوج کو شکست دے کر ملک چلانا چاہتے ہیں جو ناممکن ہے۔ موصوف کی اسی سوچ نے ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ میں دل سے سمجھتا ہوں اگر عمران کے سارے جرائم معاف کر دیے جائیں تو بھی اس کی تین غلطیاں ناقابل معافی ہیں۔
انکی سیاسی حماقتوں کی وجہ سے دونوں پرانی سیاسی جماعتوں کی مسترد شدہ قیادت دوبارہ ہمارے سروں پر نازل ہو گئی‘ آج اگر ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اقتدار میں ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ بانی کو جاتا ہے‘ دوسرا خان نے پورے ملک کو نفرت کی آگ میں جلا دیا‘ لوگ اب ایک دوسرے کے گلے پڑتے ہیں اور یہ لڑائی خاندانوں میں چلی گئی ہے اور اس کا تیسرا ناقابل معافی جرم غیر جانب دار میڈیا کا قتل ہے‘صحافیوں کے پاس اب دو آپشن ہیں‘ یہ خان کا ساتھ دیں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کا اور اس مجبوری نے پورے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا‘ صحافت ختم ہو گئی اور یہ وہ غلطی ہے جسے تاریخ بھی معاف نہیں کرے گی۔
جاوید چودھری کے بقول عمران کی پیدائش فوجی اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ سے ہوئی تھی‘ انکی پی ٹی آئی بھی ریٹائرڈ فوجی اور انٹیکی جینس افسروں نے بنائی تھی‘ عمران کی باقاعدہ پرورش کی گئی‘ ان کی امیج بلڈنگ ہوئی‘ 2011 میں احمد شجاع پاشا نے اس کی فنڈنگ کرائی‘ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے خوش حال منیجر پارٹی میں شامل کرائے گئے اور پھر جماعت کو ملک کی سب سے تگڑی سیاسی پارٹی بنا دیا گیا‘ جنرل باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار اسے 2018 میں اقتدار میں لے کر آئے اور جنرل فیض حمید پارٹی اور اقتدار دونوں چلاتے رہے۔
سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ پارٹی کی حالت یہ تھی کہ 2020 میں ایف بی آر کے چیئرمین جاوید غنی وزیراعظم کو بریفنگ دینے گئے تو وزیراعظم نے چند منٹ سننے کے بعد انھیں حکم دیا آپ آبپارہ جائیں اور جنرل فیض حمید کو بریفنگ دیں۔ اس کے بعد چیئرمین ایف بی آر ہر جمعہ کی نماز کے بعد آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر جاتے تھے اور جنرل فیض حمید کو ٹیکس کولیکشن کی بریفنگ دیتے تھے‘ ایف بی آر کے ممبرز‘ ڈی جی اور بعض اوقات کلیکٹرز تک کا فیصلہ جنرل فیض حمید کرتے تھے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر عمران خان نے سعودی عرب جیسے ان ملکوں کو ناراض کر دیا جن کے بغیر پاکستان اپنی معیشت نہیں چلا سکتا‘ دوسرا وہ فوج کے سسٹم کے اندر گھس گئے اور انھوں نے جنرل فیض حمید کو پوری فوج کے سامنے کھڑا کر دیا‘ فوج پنجاب اور کے پی میں عثمان بزدار اور محمود خان جیسے نمونوں سے بھی تنگ تھی۔
سینئیر صحافی کے مطابق اس زمانے میں وفاق میں بھی روزانہ کی بنیاد پر سرکس جاری تھی چناں چہ فوج پیچھے ہٹ گئی اور عمران خان کی حکومت گر گئی لیکن اس وقت بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کی اکثریت تھی اور پنجاب‘ کے پی‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اس کی حکومت تھی‘ بانی کو چاہیے تھا یہ صبر کرتے اور فوج کو حد سے زیادہ بے عزت کرنے کی کوشش نہ کرتے تو دو تین ماہ بعد یہ دوبارہ وزیراعظم ہوتے لیکن انھوں نے بدقسمتی سے ایک ایسی جنگ چھیڑ لی جس کا نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں تھا‘ یہ جنرل باجوہ کو میر صادق اور میر جعفر کہتے رہے‘ یہ انھیں نیوٹرل اور جانور بھی کہتے رہے۔
جاوید کے بقول فوج یہ بھی برداشت کرتی رہی‘ اس کی وجہ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن تھی‘ ایکسٹینشن کے بعد جنرل باجوہ کی ’’مورل اتھارٹی‘‘ ختم ہو گئی تھی اور فوج انھیں دل سے پسند نہیں کرتی تھی چناں چہ بانی نے جب جنرل باجوہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو فوج برداشت کرتی رہی لیکن خان نے اسے فوج کی کم زوری سمجھ لیااور یہ آگ کی شدت بڑھاتا چلا گیا‘ خان نے نئے چیف کی تقرری کو بھی متنازع بنا دیا‘ یہ اس کی دوسری بڑی غلطی تھی لیکن اصل غلطی 9 مئی 2023 کا دن تھا‘ پی ٹی آئی کے ورکرز نے اس دن براہ راست فوجی تنصیبات پر حملہ کر دیا اور یہ وہ غلطی تھی جس کے بعد معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر پہنچ گئے اور بانی مکمل طو رپر فوج کی حمایت کھو بیٹھے اور پارٹی ’’انتشاری ٹولہ‘‘ بھی بن گئی۔
جاوید چویدری کہتے ہیں کہ اس کے باوجود خان کو جیل میں کوئی تکلیف نہیں دی گئی۔ پی ٹی آئی بار بار احتجاج بھی کرتی رہی‘ 8 فروری کے الیکشن کے بعد بھی پارٹی نے پانچ احتجاج کیے بلکہ پانچ بار وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کی اور فوج اسے بھی برداشت کرتی رہی‘ 24 نومبر کا احتجاج بھی پچھلے احتجاجوں کی طرح جیسے تیسے گزر جانا تھا لیکن پھر وہ واقعہ ہو گیا جس کے بعد برداشت ختم ہو گئی‘25 اور 26 نومبرکی درمیانی شب پونے تین بجے سیاہ رنگ کی ایک گاڑی نے 3 رینجرز کو کچل کر شہید کر دیا‘ یہ سیدھا سادا اعلان جنگ تھا جس کے بعد بلیوایریا میں آپریشن کلین اپ ہوا اور 10 منٹ بعد پورا ڈی چوک خالی تھا۔ تمام غیرت مند اپنی لیڈرشپ بشری بی بی سمیت غائب ہو گے۔
اب سوال یہ ہے کیا 26 نومبر کی رات اسلام آباد میں فائرنگ ہوئی تھی۔ جاوید چوہدری سوال کا جواب دیتے ہوئے بتاتے ہیں لوگوں نے اس رات فائرنگ کی آواز سنی تھی لیکن آپریشن کے بعد کسی عمارت پر فائر کا نشان تھا اور نہ گراؤنڈ پر زخمی اور لاشیں تھیں‘ اگلا سوال یہ ہے اگر فائرنگ ہوئی تو پھر اس کے نشان اور نقصانات کہاں گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رینجرز کے پاس دو قسم کی گولیاں ہوتی ہیں‘ ایک پریکٹس بلٹس جو ڈمی راؤنڈز بھی کہلاتی ہیں اور دوسری اصلی گولیاںبجو کہ دیکھنے میں عام گولیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں بارود بھی ہوتا ہے لیکن سکہ نہیں ہوتا چناں چہ جب یہ چلائی جاتی ہیں تو ان کی آواز گولی کی ہوتی ہے لیکن مشین گن یا رائفل سے سکہ نہیں نکلتا لہٰذا نقصان نہیں ہوتا‘ امکان یہ ہے کہ اس رات رینجرز نے خوف اور دہشت پھیلانے اور ہجوم کو بھگانے کے لیے ڈمی بلٹس چلائیں، قبائلی لوگ گولی کی آواز سے واقف ہوتے ہیں‘ ان کی آنکھ ہی گولیوں کی آواز میں کھلتی ہے لہٰذا یہ صرف آواز سے اندازہ کر لیتے ہیں اس وقت پستول چل رہا ہے‘ رائفل یا پھر مشین گن، چناں چہ انھوں نے مشین گن کی آواز سنی تو دوڑ لگا دی‘ بہرحال ایک بات طے ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں خان کی فائنل کال وڑھ گئی اور اب پارٹی اور اسکا بانی دونوں زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔