خسارے کاشکارپی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن میں کیامسئلہ ہے؟

قومی ائیر لائن پی آئی اے کی نجکاری کرنے کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں۔ متعلقہ حکام کی نااہلی کی وجہ سے 11 سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود پی آئی اے کی فروخت کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی آئی اے پر واجب الاداء 80 فیصد قرضوں کے خاتمے، یورپی روٹس کی بحالی اور سیلز ٹیکس میں چھوٹ دینے کے باوجود تاحال پی آئی اے ملکی خزانے پر ایک بوجھ ثابت ہو رہی ہے۔ ناقدین کے مطابق اگر حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے تو آنے والے دنوں میں یہ ادارہ ملکی معیشت کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ ملکی معیشت پر بڑا بوجھ بننے والی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں سنہ 2014 سے کی جا رہی ہیں تاہم اب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوسکا ۔ حالانکہ حکومت نے جلد نجکاری کے لیے پی آئی اے کی منفی ایکیویٹی کے خاتمے کیلئے قومی ائیر لائن کا 80 فیصد سے زائد قرضہ پی آئی اے سی ایل کے نام سے تشکیل کردہ نئی کمپنی کو ٹرانسفر کیا گیا۔ جبکہ پی آئی اے کے یورپی روٹس کی بحالی بھی ہوگئی ہے اور پی آئی اے اور دیگر ایئرلائنز کو نئے فلیٹس کی خریداری کے لیے سیلز ٹیکس میں چھوٹ دینے کا فیصلہ بھی ہو چکا تاہم اب تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
نجکاری کمیشن کے ذرائع کے مطابق 3 کمپنیوں عارف حبیب گروپ، وائی بی ہولڈنگ اور ایک اور گروپ نے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے تاہم اس حوالے سے حکومت اور متعلقہ کمپنیوں کے مابین لین دین بارے اختلافات موجود ہیں۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے بھی حکومت کو جولائی 2025 تک پی آئی اے کی نجکاری مکمل کرنے کا ہدف دے رکھا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح پی آئی اے کی نجکاری جلد از جلد انجام کو پہنچائی جائے تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی مثبت پیشرفت سامنے نہیں آ رہی۔
معاشی ماہرین کے مطابق اس وقت پی آئی اے کی نجکاری میں بہت سے عوامل رکاوٹ بن کر سامنے آ رہے ہیں، سابق وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان سرعام کہہ چکے ہیں کہ 2 ارب روپے کی ادائیگی کرکےنجکاری کے لیے جو کنسلٹنٹ رکھے گئے تھے ان کی کارکردگی بھی متاثر نہ کر سکی ہے۔ جس کے بعد اب لگتا ہے کہ اب پی آئی اے کی نجکاری کے لیے شاید کوئی نیا کنسلٹنٹ رکھا جائے گا جو پھر سے نجکاری کے لیے اپنا پلان مرتب کرے گا لہٰذا اس کے لیے وقت درکار ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ نجکاری کے عمل میں کافی زیادہ تاخیر ہو جائے۔
بعض دیگر ناقدین کے مطابق سابق دور حکومت میں پی آئی اے کے انتظامی معاملات کافی خراب تھے اور بہت سے طیارے گراؤنڈ ہو گئے تھے بیرون ملک روٹس پر چلنے والے 12 طیاروں میں سے صرف 5 طیارے چل رہے تھے اور باقی تمام گراؤنڈ ہو چکے تھے اسی وجہ سے پی آئی اے کی نجکاری میں کافی مشکلات درپیش تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تک تو پی آئی اے کی نجکاری کی حتمی تاریخ کا نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ماضی کی نسبت اس وقت پی آئی اے ایک مضبوط ادارہ ہے اور اگر اب نجکاری کے لیے بولی کا عمل ہوتا ہے تو بہت اچھی بولی لگ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے گزشتہ سال 31 اکتوبر کو ایک مرتبہ بولی کا بھی انعقاد کیا گیا تھا تاہم خریداری میں دلچسپی لینے والی صرف ایک کمپنی نے حصہ لیتے ہوئے محض 10 ارب روپے کی بولی لگائی تھی۔ نجکاری کمیشن نے چونکہ پی آئی اے کی ریزرو قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی تھی اس لیے بلیوورلڈ کنسورشیم کی 10 ارب روپے کی بولی مسترد کر دی گئی تھی جس کے بعد پی آئی اے کی نجکاری بارے دعوے تو بہت کئے جا رہے ہیں تاہم ابھی تک عملی طور پر پی آئی اے کی نجکاری کا عمل نا مکمل ہے۔