عمران اور ان کی تحریک انصاف کو کس مکافات عمل کا سامنا ہے ؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ کی بے لگام پالیسیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ صوفیوں اور سادھووں کو سکھایا جاتا ہے کہ اگر کوئی راہ چلتا کتا ان پر بھونکے یا کوئی بد زبان گالیاں بکے تو آپ نے سر جھکا کر گزر جانا ہے اور غصے کا ردعمل پیار سے دینا ہے، لیکن ہر کوئی سادھو یا صوفی تو نہیں ہوتا جو زیادتی کو برداشت کرے۔ کچھ ایسا ہی تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہوا جو اپنی زہریلی اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم اس انتہا پر لے گئی کہ اب اسے سخت ترین ردعمل کا سامنا ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف والوں کو غلط فہمی تھی کہ انکے عمل کا ردعمل نہیں ہو گا، اور وہ فوج اور اپنے سیاسی مخالفین پر جتنے بھی الزام لگا لیں، وہ جواب میں کچھ نہیں کر سکیں گے۔ بے لگام ہو جانے والے یوتھیوں کا خیال تھا کہ وہ خود سے اختلاف کرنے والوں پر بہتان لگائیں یا سوشل میڈیا پر ان کیخلاف دشنام طرازی کریں، انہیں کوئی جواب دے ہی نہیں سکے گا۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں، اسلام سلامتی، رحمت اور امن کا دین تو ہے لیکن اسلام دشمن ابو جہل اور ابو لہب کے لقب سے پکارے گئے۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دشمنی اور جنگ صرف معافی اور مصالحت سے ہی ختم ہوتی ہے۔ ہمارے انصافی بھائیوں نے اپنے سیاسی مخالفوں حتیٰ کہ ان سے اصولی اختلاف کرنے والوں کی وہ درگت بنائی کہ وہ مذاق بن گئے۔ انصافی بھائی بھول گئے کہ کمزور سے کمزور شخص بھی اس زیادتی کا ردعمل دے گا جو گالیوں، دشنام اور الزام جیسا نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہوگا کہ وہ انصافیوں کیلئے خیر خواہی کے جذبے کو بھلا کر انہیں اپنے بدترین دشمن گردانیں گے اور پھر انکا قلع قمع کرنے کا بندوبست بھی کریں گے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یاد کریں جب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انصافی حکومت نے صدر علوی کے ذریعے نا اہلی ریفرنس  کیا تو ان پر کیسے کیسے بیہودہ الزامات لگائے گئے۔ عمران حکومت سے نکلے تو خود اعتراف کیا یہ ریفرنس غلط تھا لیکن اسکے باوجود انکی قاضی صاحب سے ناراضی رہی، آج صورت حال یہ ہے کہ کسی بڑی عدالت کا کوئی بھی جج اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ وہ عمران کو ریلیف دے سکے، وہ گنے چنے جج حضرات جو عمران خان کو اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہوئے ان کے حق میں فیصلے دیتے تھے، وہ اب خود بے یار و مددگار ہیں۔ اب تحریک انصاف کے عتاب کا سامنا کرنے والوں کے دل لوہے کے ہو چکے ہیں۔ وہ جنکے دل پی ٹی آئی کے لیے دھڑکتے تھے، یا تو اپنا سب کچھ گنوا چکے یا گنوانے والے ہیں۔ تحریک انصاف کو ججوں کی سیاست میں حصہ لینا اس قدر مہنگا پڑا کہ ان کیلئے انصاف کے دروازے ہی بند ہو گئے ہیں، کاش یوتھیے معزز ججز کیخلاف دشنام طرازی اور ان پر الزامات لگانے سے گریز کرتے تو آج یہ صورتحال ہر گز نہ ہوتی۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ملک کی دونوں بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں نے وقت اور تجربے سے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ اداروں کی سیاست میں دخل اندازی کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کروانے کے مترادف ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے نہ تو ججز کی سیاست میں دخل اندازی کی اور نہ ہی اسے کوئی سزا ملی۔ ماضی میں ن لیگ نے ججز کی سیاست کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ ہی ان کی جڑوں میں بیٹھ گئے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف والے کب یہ سبق سیکھیں گے۔ آپ آج فوج کے حوالے سے جذبات کی روم میں بہنے والے یوتھیوں کے رویے دیکھ لیں۔ جنرل قمر باجوہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے عمران خان کا ایک مقبول لیڈر کا امیج بنانے کے لیے آئی ایس پی آر کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔ انہوں نے 2018 کے دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں عمران خان کو تخت پر بٹھایا، ایک وقت تھا جب جنرل باجوہ اور انصافی دونوں پھولے نہیں سماتے تھے کہ ہم ایک صفحے پر ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے عمران دور میں ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی” نامی کتاب لکھی تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا جانباز پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ ایک جرنیل نے مجھے مجبور کیا کہ اگر کتاب شائع کرنی ہے تو اسکا ٹائٹل بدلیں۔ کتاب شائع ہوئی تو مارکیٹ سے اٹھا لی گئی اور مجھے جھٹلایا گیا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔ عمران اور باجوہ کی کمپنی نہ چل سکی۔ آج بھی عمران کی کمپنی دور دور تک کہیں چلتی نظر نہیں آتی۔ عمران کی غلطی یہ تھی کہ اس نے فوج کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی شروع کر دی۔ عمران کی جانب سے اپنے وفادار جنرل فیض حمید کی بے جا حمایت قطعاً غلط تھی۔ اس زمانے میں کور کمانڈرز کی میٹنگ میں تقریباً سارے شرکاء جنرل فیض اور ان کے اقدامات کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ لیکن انصافیے بادِ مخالف کو نہ سمجھ سکے لہٰذا باجوہ اور عمران کا ایک صفحہ بالآخر پھٹ گیا، اور یاریاں ٹوٹ گئیں تڑک کر کے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کی فوج کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی جنرل فیض حمید کی بے جا حمایت تک محدود نہیں رہی۔ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے پر مصر رہے اورجنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے سے روکنے کیلئے دھرنا دینے کا اعلان کردیا، وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ کو اپنی پسند کے مطابق بہت سوچ سمجھ کر لائے تھے لیکن انہوں نے وقت آنے پر فوج کے ادارے کا ساتھ دیا، نواز شریف کا نہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ فوج تحریک انصاف والوں کی سابقہ محبوبہ سہی، مگر وہ بھی ان کے ستم، دشنام اور گالیاں کیوں برداشت کرے۔ فوج بطور محبوبہ تو ان پر مہربان رہی، اس نے انہیں اقتدار کے مزے چکھائے، جنرل عاصم منیر کے عہدہ سنبھالنے کے بعد انصافیوں نے خود ہی یک طرفہ جنگ کا آغاز کر دیا، حالانکہ وہ جنرل باجوہ کے جانے کے بعد ایک نیا سٹارٹ لیتے تو شاید دونوں کا پرانا معاشقہ ہی بحال ہو جاتا۔ لیکن جب فوج نے انصافیوں اور یوتھیوں کو ریڈ لائنز کراس کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی نرم دلی چھوڑ کر سخت گیری کا فیصلہ کر لیا۔

عمران کی فوج سے مذاکرات  کی خواہش پراپوزیشن جماعتیں ناراض

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف والوں نے میڈیا کے ساتھ بھی یہی انتہا پسندانہ رویہ اختیار کیا ۔ دو سابق جرنیلوں کی رہنمائی میں میڈیا کو ٹارگٹ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ کبھی دھمکی دی جاتی اور کبھی خوشامد۔ کی جاتی۔ بات نہ ماننے پر صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کروایا گیا۔ حد یہ کہ سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل کو ایک جھوٹا کیس بنا کر جیل بھیج دیا گیا اور پھر یہ تاثر دیا گیا کہ حکومت کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پی ٹی آئی والوں نے باعزت صحافیوں کو لفافی قرار دے کر سوچا کہ وہ انہیں جھوٹے پراپیگنڈے سے ہی دفن کردیں گے۔ لیکن یاد رہے کہ فرعونوں کے ہاتھوں موسیٰ کبھی مرتا۔ پھر وہی ہوا، میڈیا نے انگڑائی لی اور اصلی لفافی جو انصافی پروردہ تھے، سب ایک ایک کر کے ملک سے فرار ہو گئے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے سب صحافی فقیر اور سادھو نہیں ہوتے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں۔ کئی ایک کے دل لوہے کے بھی بنے ہوتے ہیں، وہ محبوب کی ناز برداری نہیں اس کی جواب داری کے قائل ہوتے ہیں۔ کاش جذباتی یوتھیے سوچیں کہ سیاست اور اقتدار میں کامیابی دوست بنانے سے ہوتی ہے، دشمن بڑھانے سے صرف راستے بند ہوتے ہیں۔ کاش کوئی تو سوچے!!!

Back to top button