16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کا مقصد کیا تھا؟

16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر خونی حملے کی منصوبہ بندی تب کے ٹی ٹی پی امیر ملا فضل اللہ نے اپنے ساتھی عمر منصور نرے کے ساتھ مل کر کی تھی جسکا بنیادی مقصد فوجی افسران کے بچوں کو یرغمال بنا کر اپنے گرفتار ساتھیوں کو رہا کروانا تھا۔ لیکن بھگدڑ مچ جانے کے بعد بچوں کو یرغمال بنانا ممکن نہ رہا، لہذا حملہ آوروں نے خون کی ہولی کھیلنے کا فیصلہ کیا جسکے دوران 100 سے زائد معصوم طالب علم مارے گئے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق اگست 2014 میں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہونے والی ایک میٹنگ میں عمر منصور نرے نے ملا فضل اللہ کو پشتو کے ایک محاورے کا حوالہ دیا جس کا مطلب تھا کہ اگر بڑوں کو شدت سے تکلیف دینی ہو تو ان کے بچوں کو تڑپایا جائے۔ چنانچہ فضل اللہ اور عمر منصور نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کا پلان بنایا جہاں کئی بڑے فوجی افسران کے بچے زیر تعلیم تھے۔ عمر منصور نارے اس حملے کے ڈیڑھ برس بعد 13 جولائی 2016 کو ایک امریکی ڈرون حملے میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں مارا گیا تھا۔ بعد ازاں ملا فضل اللہ بھی 13 جون 2018 کو افغانستان کے صوبہ کنّڑ میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ یوں 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں سو سے زائد بچوں کے قتل عام کے ذمہ دار دونوں کردار اپنے اختتام کو پہنچ گے۔

یاد ریے کہ عمر منصور پشاور اور درہ آدم خیل میں کالعدم ٹی ٹی پی کا کمانڈر تھا جس نے اسلام آباد کے ایک مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 2007 میں کالعدم ٹی ٹی پی میں شامل ہونے سے قبل کراچی میں مزدوری کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ عمر منصور کے ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللہ سے بھی قریبی تعلقات تھے جس کا تعلق سوات سے تھا۔ لیکن مشرف دور میں سال 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد اس نے خودکش حملوں کا اعلان کیا اور یوں ریاست اور طالبان کے مابین ایک شدید جنگ کا آغاز ہوا۔

انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب یہ بات بھی عسکریت پسندوں میں گردش کرنے لگی کہ اگر حکومت ان کی درس گاہوں کو نشانہ بنا رہی ہے تو کیوں نہ ان کے سکولوں کو نشانہ بنایا جائے۔ اس دوران قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سکولوں کی عمارتوں کو مسلسل بموں سے اڑایا جا رہا تھا۔ ملا فضل اللہ کی سربراہی میں ہی طالبات کے سکول جانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اسی دوران فضل اللہ کے حکم پر ملالہ یوسف زئی کو بھی گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ فوجی قیادت نے سوات میں ایک فوجی اپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوات میں آپریشن کے بعد تحریک طالبان کے رہنما ملا فضل اللہ افغانستان کے صوبہ کنڑ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم، تعلیم اور سکولوں کے خلاف اس کی نفرت کم نہیں ہوئی بلکہ اور شدت کے ساتھ بڑھ گئی۔

یاد رہے کہ ملا فضل اللہ کو 2013 میں حکیم اللہ محسود کی ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ حکیم اللہ سے پہلے بیت اللہ محسود تحریک طالبان کا امیر تھا اور وہ بھی ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ چونکہ ملا فضل اللہ پہلا غیر محسود ٹی ٹی پی امیر تھا لہذا اسے طالبان کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا تھا اس لیے اسں نے عمر منصور نارے کو ساتھ ملا کر مرکزی کردار دے دیا۔
عمر منصور نارے ایک اور نام یعنی خلیفہ منصور کے نام سے بھی جانے جاتے تھے، جنوب سے پشاور پر سارے حملوں کی ذمہ داری عمر منصور کی تھی۔ 2009 میں پولینڈ کے انجینیئر کے اغوا اور بعد ازاں قتل میں بھی عمر منصور شامل رہا۔ اس دوران عمر منصور کا دائرہ کار خیبر تک پھیل چکا تھا۔

حکیم اللہ محسود کے مرنے کے بعد ٹی ٹی پی کی سربراہی ملا فضل اللہ کو سونپی گئی تو عمر منصور خود فضل اللہ کے پاس کنڑ پہنچا اور یوں دونوں بہت قریب آ گئے۔ چونکہ ملا فضل اللہ کو ایک قابل اعتماد ساتھی کی ضرورت تھی، اس لیے عمر کے ملنے کے بعد اسے ٹی ٹی پی پر اپنی گرفت مضبوط نظر آنے لگی۔ اہم بات یہ تھی کہ پولینڈ کے انجینیئر کے اغوا اور قتل کے بعد عمر منصور کا پروفائل بھی بڑھ چکا تھا اور چونکہ صوبائی دارالحکومت کے قریب کے محاذوں پر عمر منصور کی گرفت مضبوط تھی، اس لیے ملا فضل اللہ نے کچھ بڑا کرنے کا سوچا۔ سیکیورٹی حکام کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ ملا فضل اللہ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے بڑے حملو ں کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس دوران انکے بہت سارے ساتھی گرفتار ہوئے اور ایسا لگ رہا تھا کہ ملا فضل اللہ کا انتخاب ٹی ٹی پی کی تاریخ کا سب سے کمزور فیصلہ تھا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق اگست 2014 میں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہونے والے ایک اجلاس میں عمر منصور نے ملا فضل اللہ کو پشتو کے ایک محاورے کا حوالہ دیا جس کا مطلب تھا کہ اگر بڑوں کو شدت سے تکلیف دینی ہو تو ان کے بچوں کو تڑپایا جائے۔ ملا فضل اللہ پہلے سے ہی سکولوں کا نام و نشان مٹانا چاہتے تھے۔ اس کے ذہن میں منصوبہ بننے لگا۔ منصوبہ تھا کہ پاکستان میں کسی آرمی سکول میں گھس کر بچوں کو یرغمال بنا کر اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو ان سینکڑوں بچوں کے بدلے میں رہا کیا جائے۔ جس سکیورٹی خطرے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ غالباً یہی سکیورٹی تھریٹ تھا۔

متعلقہ اداروں کو اس انٹیلی جنس سے آگاہ کیا گیا۔ اس دوران ادارے بھی چوکنا ہو گئے اور جگہ جگہ کارروائیاں کی گئیں۔ مہینے گزرے لیکن عمر منصور نہیں بھولا۔ وہ پاک افغان سرحد پر ایک پہاڑی راستے شلمان کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے سات افراد سمیت خیبر پہنچا۔ یہ مشکل اس وجہ سے بھی نہیں تھی کہ اس وقت سرحد پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی۔ یہ لوگ خیبر کی تحصیل باڑہ میں واقع ٹی ٹی پی کے کیمپ شین درنگ پہنچے۔ شین درنگ میں مٹی سے بنی ہوئی ایک مکان نما عمارت میں کئی کمرے تھے۔ یہ ان کا تربیتی مرکز تھا۔ یہاں سکھایا جاتا تھا کہ سیڑھیاں لگا کر دیوار کیسے پھلانگنی ہے، دوسری منزل پر کیسے جانا ہے، بھاری اسلحے کے ساتھ حرکت کیسے کرنی ہے، مغویوں کو کیسے علیحدہ کرنا ہے، انہیں باندھنے اور قابو میں رکھنے کے طریقے کیا ہیں۔

مزید یہ کہ کمرے کے اندر گھس کر نشانہ کیسے لگانا ہے، بھاگتے ہوئے گولی کیسے چلانی ہے اور سب سے اہم، خودکش جیکٹ کو کب اور کیسے دھماکے سے اڑانا ہے۔ عمر منصور وقتاً فوقتاً آ کر ان کی مشق کا جائزہ لیتا تھا۔ اس تمام کارروائی کی قیادت کمانڈر صدام کو سونپی گئی تھی جبکہ باقی چھ افراد نے عملی طور پر تمام کام سر انجام دینا تھا۔ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق صدام کو ’قاری‘ کے کوڈ نام سے پکارا جاتا تھا۔ باقیوں کے نام ابوذر، عمر، عمران، یوسف، عزیز اور چمنے تھے۔

تمام حملہ آوروں کا قیام جگہ آرمی پبلک سکول سے صرف چند قدم کے فاصلے پر تھا، 16 دسمبر 2014 کی صبح حملہ آور سکول کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ زیادہ تر طلبہ ہال میں جمع تھے، اس لیے حملہ آوروں نے سب سے پہلے وہیں دھاوا بولا۔ اس کے بعد وہ کچھ ہوا جسکا درد دنیا آج بھی محسوس کرتی ہے۔صبح نو بجے شروع ہونے والی فائرنگ اور دھماکے شام تک جاری رہے اور اس دوران 100 سے زائد معصوم طالب علم مارے گئے۔ یوں 16 دسمبر 2014 کے بعد نہ تو وہ سکول ویسا رہا، اور نہ پشاور۔

Back to top button