مولانا فضل الرحمن کا صدارت سنبھالنے کا خواب کب پورا ہوگا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے، 2024 کے الیکشن میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کرنےکے باوجود مولانا فضل الرحمان پاکستانی سیاست کےایک بے تاج بادشاہ اور بے مثال سیاسی قوت کےطور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں ان کے تعاون اور سرپرستی کی طلب گار ہیں۔ ایک تجربہ کار سیاستدان کے طور پر وہ ایسی حیثیت رکھتے ہیں جو پارٹی لائنز، نظریاتی تقسیم اور حتیٰ کہ مختلف مذہبی مکتب فکر کی مخالفت سے بھی ماورا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مولانا بالاخر صدارت کے عہدے پر بھی فائز ہو جائیں گے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مولانا کمال مہارت سے ایسے دھڑوں کو قریب لائے ہیں جو تاریخی طور پر ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بریلوی مکتب فکر، جو ان کی دیوبندی جڑوں سے روایتی طور پر مختلف تھا، مولانا کی سیاسی چھتری تلے ہم آہنگ ہوگیا ہے۔ مرحوم مولانا شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے، انس نورانی، آج مولانا کے ساتھ کھڑے ہیں، اسی طرح مفتی منیب الرحمان، جو بریلوی مکتب فکر کی ایک اہم شخصیت ہیں، اب مولانا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مولانا کا اثر و رسوخ قومی سیاست سے آگے، سفارت کاری اور تنازعات کے حل تک پھیل چکا ہے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ جب ریاست کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک قابل اعتماد ثالث کی ضرورت پڑی، تو مولانا اس کا واضح انتخاب تھے۔ اپنے نظریاتی رشتے اور ان کے نقطہ نظر کی گہری سمجھ کی بنا پر ہی مولانا کو افغانستان بھیجا گیا تاکہ نازک حالات میں مذاکرات کیے جا سکیں۔ اسی طرح، جب بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران محتاط سفارت کاری کی ضرورت پڑی، تو ریاست نے مولانا کی فراست پر اعتماد کیا۔ ان کے بھارتی سیاسی و مذہبی رہنماؤں، بشمول کانگریس اور دارالعلوم دیوبند کے علماء کے ساتھ تعلقات، انہیں ایک منفرد سفارتی پل بنا دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی یہ کوششیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں لیکن ان کی یہ کوششیں انکی بے مثال حیثیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

اس سے پہلے بی بی دور میں مولانا فضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی اور خارجہ امور کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے بین الاقوامی مسائل کو مؤثر طریقے سے سنبھالا۔ اگرچہ ان کی مدت ملازمت کے دوران کشمیر تنازعہ حل نہیں ہو سکا، لیکن ان کی موجودگی نے پاکستان کے موقف کو روحانی اور نظریاتی وزن دیا۔

190 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ آنے کے بعد نیب کے خاتمے کا امکان

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مولانا کی سیاسی اور سفارتی مہارت عالمی سیاست پر بھی اثر ڈالتی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں دائیں بازو کے نظریات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو مولانا کی نظریاتی سوچ کے اثرات کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا کی مذاکراتی اور پس پردہ معاملات طے کرنے کی مہارت مشہور ہے۔ آئینی ترامیم اور دیگر اہم قانون سازی کے دوران، اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہی۔ تمام جماعتوں کے سیاستدان، بشمول تحریک انصاف والے جو ایک وقت میں انہیں طنزیہ طور پر "مولانا ڈیزل” کہتے تھے، وہ بھی ان سے رہنمائی اور حمایت حاصل کرنے انکے در پر پہنچتے رہے۔ ماشاءاللہ، مولانا خود غرضی اور اقتدار یا دولت کی خواہش سے بالکل پاک ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات – چاہے وہ ڈیزل پرمٹ سے متعلق ہوں، یا ریاست پر حکمرانی، خیبر پختونخوا پر قبضہ کرنے، یا تمام مدارس کو کنٹرول کرنے کی خواہش سے متعلق – سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ان کا بے داغ کردار ان تمام دنیوی لذتوں سے بالاتر ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون کے تحت چار بیویوں کی اجازت ہونے کے باوجود، مولانا نے اپنی عاجزی اور ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایک بیوی پر اکتفا کیا ہے۔ ان کا یہ شاندار انتخاب انہیں علماء کے حلقے کے بہت سے ساتھیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ واقعی، مولانا کی زندگی اعتدال اور اخلاقیات کی ایک مثال ہے، جو دنیاوی لذتوں سے بے نیاز ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ تحریک انصاف کے وہی رہنما جو انہیں ماضی میں تنقید کا نشانہ بناتے تھے، اب ان کے مشورے لینے کے لیے آتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران مولانا کی حکمت اور حکمت عملی نے تحریک انصاف کو سیاسی حکمت عملی میں رہنمائی فراہم کی، جو پاکستان کی سیاسی صورتحال پر ان کے گہرے اثر و رسوخ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان کی سیاست میں جہاں اسٹیبلشمنٹ کا نمایاں کردار ہے، مولانا نے اپنی الگ شناخت بنائی ہے۔ جب کہ زیادہ تر سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں احتیاط سے کام لیتے ہیں، مولانا نے ان کے ساتھ اپنے شرائط پر بات چیت کرنے کی غیر معمولی صلاحیت دکھائی ہے۔ کبھی وہ ان کے غیر ضروری اثر و رسوخ پر تنقید کرتے ہیں، اور کبھی اعلیٰ قیادت کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔ یہ توازن ان کی سیاسی ہوشیاری اور بے خوفی کو ظاہر کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی مہارت انہیں پاکستان کے اقتدار کے مرکز میں لا کر کھڑا کرتی ہے۔ چاہے حکومت ہو یا اپوزیشن، سب کے راستے بالآخر ان کے دروازے تک پہنچتے ہیں۔ پیچیدہ سیاسی حالات میں ان کی بے مثال حکمت عملی انہیں ہر سیاسی ہوا کے ساتھ متعلقہ اور بااثر رکھتی ہے۔

 

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے مولانا ایک متضاد حقیقت پیش کرتے ہیں۔ اگر انہیں اقتدار نہ دیا جائے تو وہ اپنی نظریاتی ہم اہنگی کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ، صف بندی کا اختیار رکھتے ہیں، اگر انہیں وہ قیادت دی جائے جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں، تو وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کے بے شمار مسائل کو فوری طور پر حل کر سکتے ہیں۔ مولانا کی خطابت کی صلاحیتیں ان کی سیاسی کامیابی کی ایک اور بنیاد ہیں۔ اپنے بیانیے کو اپنی مرضی کے مطابق پیش کرنے کی ان کی صلاحیت بے مثال ہے۔ مثال کے طور پر، جب انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں لیگل فریم ورک آرڈر کی حمایت کی، تو انہوں نے اپنی زبردست خطابت سے پاکستان کی تاریخ کے سب سے آمرانہ دستاویز کو جمہوریت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ کچھ ایسا ہی انہوں نے 26ویں ائینی ترمیم منظور کرواتے وقت بھی کیا۔ عوامی رائے کو بدلنے کی یہ صلاحیت ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 

مولانا کی عظمت گویا مقدر میں لکھی گئی تھی۔ وہ عظیم پیدا ہوئے، عظمت حاصل کی، اور پاکستان کی سیاست کی پیچیدگیوں نے انہیں عظیم بنا دیا۔ ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے تک ان کا عروج ناگزیر معلوم ہوتا ہے، چاہے داخلی یا خارجی سازشوں کی راہ میں رکاوٹیں کیوں نہ ہوں۔ چاہے یہ "یہودی لابی” ہو یا مغربی دنیا، مولانا ان تمام قوتوں سے بے پروا رہتے ہیں۔

 

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مولانا کئی برسوں سے ملک کی صدارت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ہر مرتبہ آصف زرداری ان کے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ وہ کب صدر پاکستان بنیں گے بلکہ یہ ہے کہ کب بنیں گے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت ملک میں مذہبی ہم آہنگی، سیاسی استحکام، اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو اعتبار فراہم کرے گی۔ ایسے میں پاکستانیوں کے لیے فیصلہ واضح ہے: مولانا کی قیادت کو اپنائیں یا طویل عدم استحکام اور بحران کا سامنا کرتے رہیں ۔

Back to top button