ایم کیو ایم کے 7 فیصلہ کن ووٹ کس طرف جائیں گے؟

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد اب متحدہ قومی موومنٹ کے 7 ممبران اسمبلی فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئے ہیں جو یہ طے کریں گے کہ عمران خان اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے یا گھر چلے جائیں گے؟ کپتان کی چار اتحادی جماعتوں میں سے بلوچستان عوامی پارٹی ان کا ساتھ چھوڑ چکی ہے جبکہ قاف لیگ نے ان کا ساتھ دینے کے عوض پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کر لی ہے۔ قومی اسمبلی میں تین نشستیں رکھنے والی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی عمران خان کے ساتھ ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ چنانچہ حزب اختلاف اور حکومت دونوں ہی ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان کے مذاکرات جاری ہیں۔

سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کے اغاز بعد حتمی معرکے کے لیے دنوں کی گنتی شروع ہے۔ مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن کی حمایت کے فیصلوں کے بعد اب سیاسی دنگل کا تمام تر دارومدار ایم کیو ایم پر ہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال میں اپوزیشن کے پاس 168 ممبران ہیں اور اگر اسے ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہو گئی تو تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 175 ووٹ پڑنے کا امکان ہے،

یوں حزب اختلاف کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور وزیراعظم اپنی اکثریت کھو دیں گے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایک درجن سے زائد منحرف ارکان کی حمایت موجود ہے جن میں سے کئی ارکان کھل کر اپوزیشن کی حمایت میں سامنے آ چکے ہیں، مگر سپریم کورٹ میں منحرف ارکان کی عارضی یا تاحیات نااہلی کی وضاحت کے لیے حکومتی ریفرنس زیر سماعت ہے جس کے باعث کئی منحرف ارکان خوفزدہ ہیں کہ کہیں بغاوت کے باعث ان کا سیاسی کیریئر ہی ختم نہ ہو جائے۔

ویسے بھی اگر یہ ممبران اسمبلی عمران کے خلاف اپنا ووٹ کاسٹ کر دیتے ہیں تو اس کے بعد انہیں استعفے دینا پڑیں گے اور نئے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دینے کے لئے یہ لوگ ایوان میں موجود نہیں ہوں گے۔ اس وجہ سے ایم کیو ایم کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس پر فلور کراسنگ کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔

اپوزیشن اور حکومت دونوں سر توڑ کوشش میں ہیں کہ کسی طرح ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کر کے اپنی برتری کو حتمی کر لیا جائے۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تقریبا روزانہ کی بنیاد پر حکومت اور اپوزیشن کے وفود ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔پیر کو بھی سینیئر حکومتی وزرا کی ایک ٹیم نے ایم کیو ایم سے ملاقات کی اور دعویٰ کیا کہ بات چیت حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔

حکومتی وفد نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اسلام آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے ملاقات کی جس میں حکومت کی طرف سے پرویز خٹک، اسد عمر، سید علی زیدی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے پارٹی سربراہ خالد مقبول صدیقی، فروغ نسیم، امین الحق، خواجہ اظہار الحسن، عامر خان، وسیم اختر، جاوید حنیف، اور صادق افتخار شامل تھے۔ ملاقات میں شامل ایک حکومتی رہنما کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔

ایم کیو ایم کو جہاں شہری سندھ کے مسائل کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں وہیں ایک اور وزارت دینے کی پیش کش کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امید ہے کہ ایم کیو ایم ایک دو روز میں فیصلہ کرے گی اور اپوزیشن کو نیا سرپرائز ملے گا۔‘ پیر کی ملاقات بارے گفتگو کرتے ہوئے وسیم اختر نے کہا ہے کہ حکومت بار بار ہمارے پاس اپنا وفد تو بھجوا رہی ہے لیکن ہمارے مطالبات بارے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی جا رہی۔

دوسری جانب وسیم اختر نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ایم کیو ایم کے معاملات کافی حد تک آگے بڑھ چکے ہیں اور ان کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی سے تحریری معاہدے کا مطالبہ کیا ہے جس پر کام جاری ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک اور رکن نے بتایا کہ مسلم لیگ (ق) کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دی گئی ہے اور حکومت ایم کیو ایم کو بھی مزید واراتیں دینے پر راضی ہے لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے ماضی میں بھی ایم کیو ایم سے وعدے کیے اور 1100 ارب کے ترقیاتی پیکج کا اعلان بھی کیا لیکن وہ پیکج آج تک صرف کتابوں میں ہی ہے۔‘

زرداری نے شہبازشریف کو “مسٹر پرائم منسٹر” کہہ کرمخاطب کیا

اپوزیشن کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے رکن کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ (ن) نے ہمیں یقین دہائی کرائی ہے کہ پیپلز پارٹی ہمارے شہری سندھ کے حوالے سے مطالبات پورے کرے گی لیکن انہیں جوائن کرنے کے حوالے سے ہم نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک عرصے سے عزیزآباد میں اپنا دفتر مانگ رہے ہیں اور اپنے لوگوں کی بازیابی کی بات کررہے ہیں۔ اگر اپوزیشن ہمیں یقین دہانی کراتی ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ہمارے مطالبات پورے کرے گی تو شاید کوئی بات بن سکے۔

اس حوالے سے جب مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئیر رہنما کا کہنا تھا کہ ’زردای صاحب اور پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ہمیں پوری امید ہے کہ ساڑھے تین برس تک کی عمران حکومت کا حصہ رہنے کے باوجود اپنے مطالبات تسلیم نہ کروا سکتے والی ایم کیو ایم اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملا کر زیادہ فائدے میں رہے گی۔

Where will the 7 decisive votes of MQM go? Urdu news ] video

Back to top button