حجاب کرنا ہے یا بکنی پہننی ہے، یہ ہر عورت کا اپنا فیصلہ ہے

نوبل انعام یافتہ

ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ کسی خاتون کا حجاب پہننا یا بکنی پہننا اس کا ذاتی فیصلہ ہے

، اور کسی دوسرے کو اپنی مرضی کا لباس پہنانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے کوئی زبردستی سر ڈھانپنے کا کہے گا تو میں احتجاج کروں گی، اور اگر کوئی زبردستی مجھے سر سے سکارف اتارے گا تو بھی میں احتجاج کروں گی۔

یاد رہے کہ بھارت سمیت یورپی ممالک میں مسلم خواتین کے حجاب کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا ہے، یہاں تک کہ مسلم طالبات کو حجاب پہننے پر نفرت آمیز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حال ہی میں بھارتی مسلم طالبہ مسکان نے اس جبر کیخلاف آواز بلند کر کے پوری دنیا کو جگا دیا، اسی موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے نوبیل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ میں حجاب پہننے یا نہ پہننے کی حمایت نہیں کرتی، مسلم خواتین کو حجاب یا برقعہ پہننے یا نہ پہننے کا فیصلہ خود کرنا چاہئے۔

ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس سے بھی اہم معاملات جن کے لیے لوگوں کو لڑنا چاہئے وہ خواتین کی آزادی، ان کی تعلیم اور خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام ہیں۔ یہ بات ملالہ یوسف زئی نے انسٹا گرام پر ایک پوسٹ میں کی جس میں خواتین کے حقوق پر لکھے جانے والے اپنے ایک مضمون کا لنک بھی دیا۔

اپنی پوسٹ میں ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ کئی برس قبل میں نے طالبان کے خلاف آواز بلند کی تھی جو خواتین کو برقع پہننے پر مجبور کر رہے تھے، اور گزشتہ ماہ میں نے بھارتی حکام کے خلاف بات کی جو لڑکیوں کو سکولوں میں حجاب اتارنے پر مجبور کر رہے ہیں، دونوں معاملات میں خواتین کو ہدف بنایا جا رہا ہے، اگر کوئی مجھے میرا سر ڈھانپنے پر مجبور کرے تو میں احتجاج کروں گی، اگر کوئی مجھے میرا سکارف اُتارنے پر مجبور کرے تو بھی میں احتجاج کروں گی۔

ملالہ یوسفزئی کے مطابق لوگوں کو اس بحث سے باہر نکل کر ان معاملات پر توجہ دینی چاہیئے جن کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے، انیوں نے کہا کہ کوئی خاتون برقع کا اتنخاب کرے یا بکنی کا، اسے یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے، لوگوں کو ان چھوٹی بحثوں میں الجھنے کی بجائے بڑے معاملات پر توجہ دینی چاہیے، انہیں خواتین کی آزادی اور خودمختاری پر بات کرنی چاہیئے، تشدد کی روک تھام، تعلیم اور جبر کو روکنے کے خلاف بولنا چاہیئے، ہمارے پاس ملبوسات پر اعتراضات لے کر نہ آئیں۔

خواتین کائنات کوزندہ، رنگین اورمتاثر کن بناتی ہیں

اپنے مضمون کا لنک دیتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے خواتین کو کہا کہ وہ اسے پڑھیں تاکہ تعین کر سکیں کہ پوڈیم پر انہیں کیا پہننا چاہئے، اس مضمون میں ملالہ نے اپنے چند تجربات کا ذکر کیا ہے جیسے کالج میں ان کے ملبوسات پر لوگوں نے کیسے ردعمل کا اظہار کیا۔

ملالہ یوسف زئی نے کہا ‘آکسفورڈ میں کالج میں میری ایک تصویر دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں آئی، جس میں، میں نے جیکٹ، جینز اور اسکارف پہنا ہوا تھا، ان کا کہنا تھا ‘کچھ افراد روایتی شلوار قمیض کی جگہ اس لباس کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے، مجھ پر بہت زیادہ مغربی ہونے کی تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ میں نے اسلام اور پاکستان کو چھوڑ دیا، کچھ کا کہنا تھا کہ جینز کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک میں نے سکارف پہنا ہوا ہے، دیگر نے کہا کہ میرا اسکارف جبر کی علامت ہے اور مجھے اسے اتار دینا چاہئے۔

نوبیل انعام یافتہ ملالہ نے کہا کہ مجھے لگا کہ مجھے اپنا دفاع کرنے یا دوسروں کی توقعات پر پورا اترنے کی ضرورت نہیں، سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے اسکارف سے محبت ہے، میں جب اس کو پہنتی ہوں تو میں خود کو اپنی ثقافت کے قریب محسوس کرتی ہوں، مجھے توقع ہے کہ میرے گاؤں کی لڑکیاں ان کی طرح نظر آنے والی اور لباس پہننے والی اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہیں، کیرئیر اور اپنے مستقبل کا انتخاب کر سکتی ہیں۔

Whether to wear hijab or bikini it is up to woman to decide

Back to top button