عمران خان مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کس کو کہہ رہے ہیں؟
عمران خان پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی ممکنہ شکست کو ابھی سے کاؤنٹر کرنے کے لئے مسلسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے انتخابی دھاندلی کا پلان بنا رکھا ہے اور مسٹر ایکس نے اس حوالے سے مسٹر وائے کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے تا کہ مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ ایسے میں یہ سوال زبان زد عام ہیں کہ عمران مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کس کو قرار دے رہے ہیں؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ عمران کے سازشی بیانیے کے لیے دھچکہ
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران عمران خان کی توپوں کا رخ اپنے سیاسی مخالفین سے زیادہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہے جس پر وہ مختلف طریقوں اور الفاظ کے انتخاب سے تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان نے سب سے پہلے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے جانور کا لفظ استعمال کیا اور بعد ازاں انہیں نیوٹرلز کہنا شروع کر دیا۔ لیکن اب ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران وہ جلسوں میں مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی نئی اصطلاحات استعمال کررہے ہیں۔ جب انہوں نے الیکشن مہم کا آغاز کیا تھا تو تب انہوں نے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لاہور میں تعینات ایک افسر کا نام لے کر تنقید کی اور الزام عائد کیا تھا کہ وہ پنجاب میں کے ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں، تاہم اب وہ کسی کا نام لینے کے بجائے متبادل الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کا انتخاب کر رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ جن سے وہ مخاطب ہیں ان کو پیغام مل رہا ہے۔ یاد رہے کہ مسٹر ایکس کا نام ابن صفی کے ناولوں میں ایک جاسوس کردار کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ عمران کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چونکہ وہ جارحانہ سیاست کے قائل ہیں اس لیے وہ اپنی مرضی سے کبھی فرنٹ فٹ پر آجاتے ہیں اور کبھی الفاظ کے انتخاب میں ردوبدل کر لیتے ہیں بلکہ پوری تحریک انصاف کی قیادت یہ لائن لیتی نظر آرہی ہے۔
اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ دراصل عمران خان جب مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کا ذکر کرتے ہیں تو وہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم اور ان کے نائبین کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ سماء ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہا کہ ایسا کرکے عمران دراصل اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ثبوت کی سیاست نہیں کرتے بلکہ جھوٹ کی سیاست کرتے ہیں اس لیے ان کا بیانیہ ہمیشہ ہوائی ہوتا ہے جو بعد میں 35 پنکچرز کی طرح جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران فوجی افسران کا براہ راست نام لینے کی سکت نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے کے لیے اخلاقی جرات چاہیئے۔ طلعت حسین نے کہا کہ عمران خان اپنی مرضی کی تاریخ لکھتے ہیں اور مرضی سے الزامات لگاتے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے کبھی کوئی ثبوت پیش کرنے کی زحمت نہیں کی۔ دراصل وہ خود کو ایک پیغمبر سمجھتے ہیں اور اب اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ اپنے ووٹر کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سوال کرنا ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کی امپورٹڈ حکومت کے خلاف جدوجہد کیوں نہیں کی تھی؟
سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت اسٹیبلشمنٹ کو مختلف ناموں سے پکارا کر اور نت نئے الزامات لگا کر اس پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے تا کہ وہ ان کے ایجنڈے پر واپس آجائے۔ ظاہر ہے کہ عمران خان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملکی سیاست پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں چونکہ 2018 کے الیکشن میں عمران خان کی کامیابی کی راہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہموار کی تھی اس لیے اب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھا کر وہ اسے دوبارہ اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران بظاہر تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف بیانات بھی داغتے ہیں لیکن پس پردہ ان کی فوجی قیادت سے تعلقات بحال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ عمران اس وقت دو طرح سے کھیل رہے ہیں، ایک طرف وہ صحافیوں کو کہتے ہیں کہ میں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے فون نمبرز بلاک کر دیے ہیں جب کہ دوسری جانب وہ مختلف لوگوں کے ذریعے جنرل باجوہ اور جنرل ندیم سے تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔ یعنی وہ مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کا نام لیکر انہی عسکری کرداروں پر ملاقات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔