مذہب کی توہین کا الزام لگا کر سزا دلوانے والا گروہ کون چلا رہا یے؟
اسلام آباد کی ایک اور مقامی عدالت نے سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے تین مذید افراد کو سزائے موت سنا دی ہے۔ تینوں پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی پوسٹس میں مقدس شخصیات کی توہین کی یے۔ ان تینوں افراد کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم انکے وکلا کا کہنا یے کہ ایک طویل عرصے سے سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹس کرنے کے الزام میں لوگوں کو سزائیں تو سنائی جا رہی ہیں لیکن ان افراد کی شکایات پر غور نہیں کیا جا رہا جن کا دعوی ہے کہ انہیں باقاعدہ ٹریپ کر کے ان کیسز میں ملوث کیا گیا اور پھر سزا دکوائی گئی۔
اسلام اباد کی مقامی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے والے تینوں افراد کو گستاخانہ مواد کی تشہیر پر تین سال اور پیکا ایکٹ کے تحت مذہبی منافرت پھیلانے پر سات سال قید کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کا جرم ثابت ہونے پر ٹرائل کورٹس کی جانب سے سزائے موت پانے والے مجرمان کی مجموعی تعداد اب 22 ہو گئی ہے۔
پاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا ایکٹ 2016 پیکا ایکٹ کہلاتا ہے جو انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا میں ہونے والے جرائم کی روک تھام اور ان کی سزا کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت بغیر اجازت کسی کے ڈیٹا یا اکاؤنٹ تک رسائی، ڈیٹا کی چوری، سائبر سٹالکنگ اور مذہبی منافرت پھیلانے پر سزا ہو سکتی ہے۔
تاہم توہینِ مذہب کے کئی کیسز میں ملزمان کی وکالت کرنے والے قانونی ماہرین کا دعوی ہے کہ پنجاب میں موجود ایک منظم گروہ کام کر رہا ہے جو مختلف افراد کو ٹریپ کر کے ایسے کیسز میں شامل کرتا ہے اور گستاخانہ مواد کا الزام لگا کر ایف آئی اے کی مدد سے انہیں سزائیں دلوائی جاتی ہیں۔ تاہم سزائیں دلوانے والے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ سراسر الزام ہے اور وہ صرف مقدس ہستیوں کی ناموس کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ توہینِ مذہب کے کیسز میں گرفتار ہونے والے افراد کے وکیل عثمان وڑائچ کہتے ہیں کہ سپیشل برانچ پنجاب کی ایک رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں موجود ایک گروہ ایف آئی اے کے ساتھ مل کر لوگوں کو ٹریپ کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنکا کہنا تھا کہ ایک مخصوص گروپ لوگوں کو فیس بک اور وٹس ایپ گروپ میں شامل کرتا ہے جس کے بعد توہینِ مذہب کے موضوع پر ہونے والی گفتگو کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ایسے کیسز میں ایف آئی اے کے ذریعے ‘پیکا ایکٹ’ لگا کر لوگوں کو اس میں ملوث کیا جاتا ہے۔ عثمان وڑائچ کے بقول اس وقت سندھ میں درج ہونے والے کیسز میں بعض افراد کو ریلیف ملا ہے۔ بعض کیسز میں ملزمان کو ضمانتیں بھی ملی ہیں لیکن پنجاب اور اسلام آباد میں آنے والے بیشتر کیسز میں سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بارے میں ایکشن لینے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 19 ججز کو خط لکھے تھے۔ بعض افراد نے انسانی حقوق سیل کو بھی خط لکھے ہیں۔
متاثرہ افراد کے اہلِ خانہ نے وفاقی حکومت کو بھی لکھا لیکن آج تک ان کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔ اس کے بعد یہ معاملہ اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔ پاکستان میں توہینِ مذہب کے کیسز میں گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس وقت بھی 400 سے زائد کیسز ملک کی مختلف عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔ توہین مذہب کے بہت زیادہ کیسز سوشل میڈیا بالخصوص وٹس ایپ چیٹس کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے۔
کچھ عرصہ قبل نیوز ویب سائٹ ‘فیکٹ فوکس’ پر اسپیشل برانچ پنجاب کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا گیا تھا کہ پنجاب کے بعض وکلا ایک منظم گروہ چلا رہے ہیں جو لوگوں کو ٹریپ کرنے کے بعد ایسے کیسز میں شامل کرتے ہیں اور اس کام میں ایف آئی اے بھی ان کی معاونت کرتی ہے اور پیکا ایکٹ کے تحت لوگوں پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ ان افراد کے خلاف کیسز درج کر کے انہیں لمبی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اس بارے میں ان وکلا نے ایسے کسی بھی معاملے میں شامل ہونے کی تردید کی تھی لیکن رپورٹ میں یہ بھی ثابت ہوا تھا کہ ایک ہی وکیل نے متعدد افراد کے خلاف مقدمات درج کرائے تھے۔
یاد رہے کہ توہین مذہب کے کیسز میں گرفتار افراد کے اہل خانہ نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس کی تھی۔ اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ بعض کیسز میں ان سے رقوم کا مطالبہ کیا گیا اور نہ دینے کی صورت میں انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور ان کے خلاف کیسز قائم کر دیے گئے۔