پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے بلوچ نوجوان کس نے اغوا کیا؟

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹل نمبر 7 سے 27 اپریل کو ایک بلوچ طالبعلم کو سادہ لباس میں ملبوس افراد کی جانب سے اغوا کیے جانے کے بعد سے کسی ایجنسی یا ادارے نے اس کی گرفتاری ظاہر نہیں کی۔ لیکن
بیبگر امداد بلوچ کی حراست کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہو چکی ہے
جس میں سادہ لباس میں ملبوس اغوا کاروں کے چہرے صاف نظر آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس گرفتاری کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسے کسی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا ہے۔
سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی اور معروف وکیل ایمان حاضر مزاری نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’کراچی کے حملے کے بعد بلوچ عوام کو اجتماعی سزا۔‘ ان کے مطابق اغوا کیا جانے والا نوجوان ایک طالب علم ہے جو اسلام آباد سے لاہور اپنے کزن کے پاس عید کی چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔
یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلوچ نوجوان کو شاید کراچی یونیورسٹی میں 26 اپریل کو ہونے والے خودکش دھماکے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہو۔ خیال رہے کہ جامعہ کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی سے وابستہ ایک خاتون خودکش بمبار نے تین چینی باشندوں سمیت چار افراد کی جان لے لی تھی۔ لاہور میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے ترجمان نے اپنے بیان میں لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت بیبگر امداد بلوچ کے نام سے کی ہے اور واقعے کو ’اغوا نما گرفتاری‘ قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی گردش کررہی ہے جس میں پنجاب یونیورسٹی کا سکیورٹی انچارج اپنے اردگرد کھڑے طالبعلموں کو بتا رہا ہیں کہ بیبگر امداد بلوچ کو حراست میں لینے آنے والوں نے کہا تھا کہ ہم لڑکے کا ڈیٹا وغیرہ لیں گے۔ اگر وہ ملوث ہوا تو ایف آر اور چارہ جوئی کریں گے لیکن اگر وہ ملوث نہ ہوا تو واپس آجائے گا۔ تاہم اس شخص کی جانب سے اپنے پاس کھڑے طالبعلموں کو یہ نہیں بتایا کہ بیبگر امداد بلوچ کو حراست میں کس ایجنسی نے لیا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ ایک حساس ادارے کے اہلکاروں نے ہاسٹل نمبر 7 سے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا ہے۔
ترجمان کے مطابق مشتبہ نوجوان پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم نہیں اور ایک روز قبل ہاسٹل میں ایک عزیز کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے مشتبہ نوجوان کو حراست میں لیے جانے سے قبل یونیورسٹی کو باقاعدہ آگاہ کیا تھا کہ اس سے تفتیش کی جانی ہے۔ تاہم کسی کو معلوم نہیں کہ اس نوجوان کو کسی ایجنسی نے اٹھایا ہے اور کہاں لے کر گئے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ بیبگر امداد اپنے چچا زاد کزن سالم بلوچ کے پاس گزشتہ رات اسلام آباد سے لاہور پہنچا تھا۔ سالم بلوچ کے مطابق وہ عید کی چھٹیوں پر لاہور سے تربت روانہ ہونے ہی والے تھے کہ اس کے کزن کو اغوا کر لیا گیا۔ سالم بلوچ نے بتایا کہ اسکا کزن بیبگر امداد نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگلش لٹریچر میں بی ایس کی ڈگری کر رہا ہے اور اس کا ساتواں سمسٹر چل رہا ہے۔
وہ کل ہی اپنے کزن کے پاس لاہور پہنچا تھا جہاں سے ان دونوں نے مل کر عید کی چھٹیوں پر اپنے گھر تربت جانا تھا۔ سالم نے بتایا کہ علی الصبح جب ہم دونوں کمرے میں سو رہے تھے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ بیبگر نے مجھے اٹھایا اور کہا کہ دروازہ کھولو، میں دروازہ کھولنے گیا تو یونیورسٹی کا چیف سکیورٹی آفیسر اور اس کے ہمراہ سول کپڑوں میں کچھ نقاب پوش کمرے میں داخل ہوئے اور انتہائی بدتمیزانہ انداز میں پوچھنے لگے کہ بیبگر امداد کون ہے، بیبگر نے بتایا کہ میں ہوں، تو نقاب پوش نے کہا کہ تمہاری چیکنگ کرنی ہے، تم ہمارے ساتھ چلو۔ بیبگر نے جواب دیا کہ آپ میری چیکنگ کریں جو پوچھنا ہے پوچھیں مگر میں ساتھ نہیں جاؤں گا، آپ کے پاس مجھے ساتھ لے جانے کے وارنٹ بھی نہیں ہیں۔
سالم نے بتایا کہ اس جواب پر سادہ لباس میں ملبوس افراد نے زبردستی شروع کر دی اور اس کو کمرے سے کھینچتے ہوئے لے گئے، سالم نے بتایا کہ انہوں نے میرا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور تشدد کرتے ہوئے میرے کزن کو ویگو ڈالے میں بٹھا کر لے گئے۔ سالم بلوچ کے مطابق وہ اس کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
سالم کا کہنا ہے کہ اس کا کزن ایک غیر سیاسی انسان ہے، وہ سوشل میڈیا پر سیاسی موضوعات پر بہت کم گفتگو کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ بیبگر کے والد اور میرے چچا بلوچستان کے لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں آفیسر ہیں اور ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کا کسی قسم کی سیاسی یا علیحدگی پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سالم کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کی بلوچ کونسل نے یونیورسٹی حکام سے ملاقات کی مگر وہ کسی قسم کا تعاون کرنے کو تیار نہیں، سالم نے بتایا کہ اس جبری گمشدگی کی وجہ سے طلبہ نے وائس چانسلر کے آفس کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے اور بڑے احتجاج کا بھی لائحہ عمل بنا رہے ہیں۔
اس معاملے میں متحرک اور بلوچ طلبہ کی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے والی انسان حقوق کی کارکن ایمان مزاری نے بتایا کہ بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی ایک معمول بن چکا ہے، بیبگر امداد کی جبری گمشدگی کے حوالے سے انہوں نے لاہور میں کچھ وکلا سے بات کی ہے جو ہائیکورٹ میں کیس دائر کروائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وارنٹ گرفتاری کے بغیر کسی کو بھی اس طرح اٹھانا غیر قانونی ہے۔ ایمان مزاری سے جب پوچھا گیا کہ کل کے واقعے میں ایک پڑھی لکھی خاتون کے ملوث ہونے کے بعد کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو سکتے۔ جواب میں ایمان مزاری نے کہا کہ وہ کبھی تشدد اور دہشتگردی کی حمایت نہیں کرتیں، تاہم ایک پڑھی لکھی اور باشعور خاتون کو جن محرکات نے ایسا کرنے پر مجبور کیا، ان کا پتہ چلانا بھی ضروری ہے۔
بلوچ قوم پرست چینیوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟
ایمان نے کہا کہ میں صوبہ بلوچستان میں جاری انسانیت پر ظلم کو ایسے ہی دیکھتی ہوں جیسے پاکستان میں لوگ کشمیر اور فلسطین کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، ریاست اور خاص طور پر فوج کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا ، جب ریاستی ادارے نوجوانوں کو ایسے دن دیہاڑے غائب کریں گے، اور وہ بھی بغیر کسی قانون کے تو وہ دہشتگرد بننے پر مجبور ہوجائیں گے۔
Who kidnapped Baloch youth from Punjab University hostel? video