پشاور بم دھماکے میں نشانہ بننے والے مفتی منیر شاکر کون تھے؟

پشاور کے علاقے ارمڑ میں ایک دینی مدرسے کے باہر ریموٹ کنٹرولڈ بم دھماکے میں مارے جانے والے لشکر اسلام کے بانی اور مذہبی شخصیت مفتی منیر شاکر خیبر میں 2001 سے لے کر 2011 کے دوران چلنے والی شدت پسندی کے دور میں ایک اہم کردار سمجھے جاتے تھے، لیکن بعد میں اپنی جان کو درپیش خطرات کے پیش نظر وہ منظر عام سے غائب ہو گئے تھے۔

مفتی منیر شاکر کو تب بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ ارمڑ میں قائم کردہ اپنے مدرسے جامع مسجد ندائے قرآن سے نماز ادا کر کے نکلے تھے۔ بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد مفتی منیر شاکر کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، لیکن دوران علاج وہ چل بسے۔ بتایا جاتا ہے کہ دھماکے میں شہید ہونے والے مفتی منیر شاکر کے بیٹے نے حملے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی تک والد کی تدفین سے انکار کر دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جب تک متعلقہ پولیس افسران ان کے سوالوں کے جواب نہیں دیں گے، وہ والد کا کفن دفن نہیں کریں گے۔مفتی منیر کے بیٹے کے مطابق ہم نے بار بار پشاور پولیس کے سینئیر افسران کی منتیں کی تھیں کہ ہمیں جان کا خطرہ ہے لہذا یا تو ہمیں اسلحہ رکھنے دیا جائے یا پھر سرکاری سیکیورٹی دی جائے، لیکن ہماری ایک نہ سنی گئی۔ مفتی منیر کے بیٹے نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ جب تک انہیں پولیس سے جواب نہیں ملے گا، احتجاجاً ان کے والد کی تدفین نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بندوق اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن مخالفین کو میرے والد کی جان لینے کی اجازت دے دی گئی۔

یاد رہے کہ 1969 میں ضلع کرم کے گاؤں ماخی زئی میں پیدا ہونے والے مفتی منیر شاکر نے مذہبی تعلیم کراچی کی معروف جامعہ بنوریہ سے حاصل کی تھی۔ مفتی منیر کو ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں 2003 میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سربراہ حاجی نامدار نے متعارف کروایا۔ باڑہ میں وہ حاجی نامدار کے نجی ریڈیو سٹیشن سے خطبے دیتے تھے۔ مفتی شاکر ضلع خیبر میں اپنے ایف ایم ریڈیو پر اسی علاقے کے رہائشی پیر سیف الرحمان کے نظریات کی کھلے عام مخالفت کرتے تھے جو انصار الاسلام نامی ایک تنظیم کے سربراہ بھی تھے۔ مفتی شاکر دراصل پیر سیف الرحمان کے بہت بعد ضلع خیبر میں آئے تھے لیکن انہوں نے بہت جلد علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا اور لشکر اسلام نامی ایک تنظیم کی بنیاد بھی رکھ دی۔

اس دوران پیر سیف الرحمن اور مفتی منیر شاکر اور انکی تنظیموں کے مابین اختلافات بڑھتے چلے گئے جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دونوں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ جب ان دونوں کے فالوورز نے آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا تو 2005 میں امن جرگے کے فیصلے کے مطابق دونوں کو ہی علاقہ بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران لشکر اسلام اور انصار الاسلام کے فالوورز کے مابین جھڑپیں ہوئیں جن میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ چنانچہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سال 2006 میں خیبر ایجنسی میں فوجی آپریشن شروع کر دیا اور 2007 میں دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مفتی منیر شاکر کی گرفتاری کے بعد کمانڈر منگل باغ نے لشکر اسلام کی قیادت سنبھال لی اور بعد ازاں افغانستان میں مارے گئے۔

سوشل میڈیا پر ریاست دشمنی سے PTI کی سیاسی کمیٹی بھی نالاں

دوسری جانب مفتی منیر شاکر نے رہائی کے بعد پشاور کے علاقے شیخ محمدی میں دوبارہ ایک نیا ریڈیو سٹیشن بنا لیا، لیکن وہ اس مرتبہ ماضی جیسا اثر رسوخ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو پائے۔ پھر مفتی منیر شاکر اچانک منظر عام سے غائب ہو گئے اور یہ افواہیں سنی گئیں کہ وہ جان کے خوف سے افغانستان چلے گئے ہیں۔ کچھ برس پہلے مفتی منیر شاکر دوبارہ منظر عام پر آئے اور پشاور میں جامع مسجد ندائے قرآن کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کر لیا۔ اس دوران انہوں نے مذہبی مسائل پر تقاریر بھی شروع کر دیں جنہیں ان کے نظریاتی مخالفین متنازع سمجھتے تھے کیونکہ مفتی صاحب مختلف مکاتب فکر کے علما کیساتھ شرعی مسائل پر اختلافی سوچ رکھتے تھے۔ مفتی منیر شاکر کے قتل کی تحقیقات اسی سمت میں بڑھائی جا رہی ہیں۔

Back to top button