جنرل فیض سے قبل فوجی کارروائی کا سامنا کرنے والے دوسرے ISIسربراہ کون؟
ملکی تاریخ میں کئی تھری سٹار جرنیلوں کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے لیکن یہ دوسری بار ہے جب آئی ایس آئی کے کسی سابق سربراہ کے خلاف کارروائی ہو رہی ہو۔سنگین الزامات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے پہلے ڈی جی آئی ایس آئی نہیں ہیں ان سے قبل آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف بھی فوجی قانون کے مطابق ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ تاہم جنرل فیض حمید کیخلاف سامنے آنے والی چارج شیٹ سیاست میں مداخلت اور فوج میں بغاوت سمیت مختلف سنگین الزامات پر مشتمل ہے جن میں سے کئی الزمات پر انھیں عمر قید اور سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ جنرل (ر) فیض جون 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کے دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تھے۔ ان کے سابق وزیر اعظم کے ساتھ مبینہ سیاسی گٹھ جوڑ کے شبے پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں کور کمانڈر پشاور تعینات کر دیا تھا، جو دیگر وجوہات کی طرح آرمی چیف اور وزیراعظم ہاؤس میں تنازعے کا سبب تھا۔
اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد فیض حمید جب کور کمانڈر پشاور تھے تو ان کی مبینہ سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی تحریکوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر انہیں جی ایچ کیو طلب کیا گیا تھا۔بعد ازاں انہیں پشاور سے بہاولپور تعینات کر دیا گیا جہاں چار ماہ خدمات انجام دینے کے بعد وہ مستعفی ہو گئے۔2023 میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کے واقعات پر جنرل (ر) فیض کی سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہونے والے تمام معاملات پر تحقیقات مکمل کر کے ان کے خلاف رواں برس اگست میں کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ جنرل فیض حمید سے قبل سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جا چکی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی 90 کی دہائی میں آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ انہیں 1988 میں بطور ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس تعینات کیا گیا تھا۔اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انہیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا تاہم ان کی سیاسی امور میں مبینہ مداخلت کی دوبارہ اطلاعات پر انہیں قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا تھا۔اصغر خان کیس میں الزام عائد کئے گئے تھے کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل موجود ہیں جو ملکی سیاست میں دخل اندازی کرتے ہیں۔
بعد ازاں سیاسی مداخلت کے الزامات کے برعکس انہیں فروری 2019 میں انڈین خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ مشترکہ کتاب لکھنے کے جرم میں فوج نے محکمانہ کارروائی کرتے ہوئے ان کے رینک اور مراعات واپس لے لیے تھے اور نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا تھا۔لیکن بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کا نام نام ای سی ایل سے نکال دیا تھا۔
دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کے مطابق جنرل فیض اور جنرل درانی کے خلاف کارروائی میں فرق یہ تھا کہ جنرل درانی کے خلاف اصغر خان کیس میں سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں اور عدالتیں کارروائی چاہتی تھیں جبکہ جنرل فیض کے خلاف کارروائی فوج خود چاہتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ ’اسد درانی فوج میں بغاوت نہیں چاہتے تھے اور نہ ان کا ایسا کوئی مقصد تھا، جبکہ فیض حمید فوج میں بغاوت چاہتے تھے کہ فوج تقسیم ہو جائے اور وہ ایسا ذاتی مفاد کے لیے کر رہے تھے۔’ان کا دعویٰ تھا کہ بیرونی ہاتھوں کو ملکی معاملات میں ملوث کرنا اور عمران خان کی جماعت کو یہ یقینی دہانی کرانا کہ آدھے سے زیادہ فوج ان کے ساتھ ہے یہ سب سیاسی انتشار کی کڑی تھی اور اس میں آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملات پر رکاوٹ ڈالنا بھی شامل تھا۔‘
دفاعی تجزیہ کار برگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ ’ٹاپ سٹی کی مثال آپ کے سامنے ہے، اس سے قبل بطور ڈی جی سی اور بطور ڈی جی آئی ایس آئی سیاست میں ملوث ہونا بھی جنرل فیض کا بڑا جرم ہے۔
حارث نواز کے مطابق جنرل فیض حمید پر’الزامات یہ بھی ہیں کہ عمران خان فیض حمید سے مشورے لیتے رہے کہ کب کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔ اگر کسی سینیئر افسر کے خلاف ایسے الزامات سامنے آتے ہیں تو فوج مکمل چھان بین اور ثبوتوں کے بعد ہی کارروائی شروع کرتی ہے۔ ‘جنرل فیض حمید کیخلاف کارروائی بھی مکمل ثبوتوں کے بعد شروع کی گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’جنرل فیض کے خلاف جتنی دفعات لگائی گئی ہیں ان میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ سب سے سنگین ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے دو سال تک بالکل سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں کیونکہ ان کے پاس ادارے کے بہت سے راز ہوتے ہیں اور جاری مشنز کا بھی ان کو پتہ ہوتا ہے۔ اس لیے فیض حمید پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو کیا گیا ہے۔‘
احتساب کے عمل کا فوج پر کیا اثر ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں برگیڈیئر (ر) حارث نے کہا کہ ’فوج میں جب کوئی جرم میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے پوری رجمنٹ کے سامنے رینک اتارے جاتے ہیں، ہاتھ باندھے جاتے ہیں اور گاڑی میں بٹھا کر جیل لے جایا جاتا ہے۔ سب کے سامنے اس کارروائی کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ باقی لوگ اس سے سبق سیکھیں۔‘