بلوچستان میں ریاست اور بلوچ یکجہتی کونسل آمنے سامنے کیوں؟

بلوچ لبریشن آرمی کے ہاتھوں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اور مسافروں کے قتل عام کے بعد سے ہونے والی جوابی کارروائیوں نے صوبے میں امن و امان کی صورت حال مزید تشویش ناک کر دی ہے جس کی بنیادی وجہ ماہ رنگ بلوچ کی زیر قیادت بلوچستان یکجہتی کونسل کیجانب سے کی جانے والی مزاحمت اور احتجاج ہے۔

ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے درجنوں معصوم ٹرین مسافروں کے قتل عام کی مذمت کرنے کی بجائے مسنگ پرسنز کا مسئلہ پھر سے کھڑا کر دیا یے۔ اب تو کوئٹہ میں بھی امن وامان کی صورتحال تسلی بخش نہیں رہی ہے۔ حکومت کو اسوقت بلوچ یکجہتی کونسل کی جانب سے برپا کیے جانے والے سخت ترین احتجاج کا سامنا ہے۔ اس تنظیم کی پہچان ماہ رنگ بلوچ ہیں جو کئی برسوں سے ’مسنگ پرسنز‘ کا معاملہ اٹھانے کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں میں مقبول تر ہو چکی ہیں۔ آخری خبریں آنے تک انھیں گرفتار بھی کیا جا چکا تھا۔ گرفتاری کی وجہ جعفر ایکسپریس کے اغوا کے بعد ہوئی کارروائی کے دوران بلوچ دہشت گردوں کی ہلاکت بتائی جارہی ہے جن کی لاشوں کے ورثا تو سامنے نہیں آئے مگر بلوچ یکجہتی کونسل ان کی ’وارث‘ بن کر لاشوں کو وصول کرنا چاہتی ہے۔

حکومت دہشت گردوں کی لاشیں بلوچ قوم پرستوں کے حوالے کرنے کی بجائے انکے اصل ورثا کے حوالے کرنے پر مصر ہے۔ اسے خدشہ لاحق ہے کہ ماہ رنگ اور اسکے ساتھی ٹرین اغوا میں ملوث دہشت گردوں کی لاشیں وصول کر کے احتجاج بھڑکانے کے لیے استعمال کریں گے۔ اس دوران یہ اطلاع بھی آئی کہ بلوچ یکجہتی کونسل کے احتجاجی مظاہرین نے کوئٹہ کے ایک ہسپتال سے زبردستی ان 5 دہشت گردوں کی لاشیں چھین بھی لیں جو جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد فوج کی جوابی کاروائی میں مارے گئے تھے۔ لہذا یہ سوال کرنا بیجا نہ ہو گا کہ اگر بلوچستان کے دارالخلافہ میں ریاست کی رٹ کی حالت اتنی ابتر ہے تو باقی صوبے کی حالت کیا ہو گی۔

بلوچستان میں امن و عامہ کی ابتر صورتحال اس وقت پاکستان کے سب سے سنگین مسائل میں سے ایک ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر اپنے خطاب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مسلح افواج کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کا بیان اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ بلوچستان میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں بدامنی اور دہشت گردی صوبے کو مسلسل غیر مستحکم کر رہی ہے۔

اس حوالے سے تازہ ترین واقعہ کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی ریلی کے دوران ہونے والے پُرتشدد تصادم کا تھا۔ مظاہرین کے خلاف لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال، اور بکوچ قیادت کی گرفتاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اگرچہ اشتعال انگیزی میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست کو ایسے احتجاجات کے خلاف محتاط ردِعمل دینا ہوگا، کیونکہ سخت گیر اقدامات پہلے سے محروم بلوچ عوام کو مزید دور دھکیلنے کا خطرہ رکھتے ہیں۔

موجودہ سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ بنانے والی ایک اور دہشت گردی کی لہر بلوچستان میں دیکھی گئی ہے۔ قلات میں چار پنجابی مزدوروں کا بہیمانہ قتل، نوشکی میں چار پولیس اہلکاروں کا قتل، اور نیم فوجی قافلے پر مہلک خودکش حملہ ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اور 26 مسافروں کا قتل عام ہولناک واقعہ تھا، بی ایل اے کا پُرتشدد ایجنڈا سب پر واضح ہے؛ یہ دہشت گرد تنظیم نہ صرف سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے بلکہ غیر بلوچ مزدوروں پر حملے کر کے نسلی منافرت کو بھی ہوا دیتی ہے۔

حکومتی اور فوجی قیادت سمجھتی ہے کہ بی ایل اے کے خلاف ایک بھرپور فوجی کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ اس کی عسکری سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔ تاہم، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ محض فوجی آپریشن بلوچستان میں پائیدار امن نہیں لا سکتا۔ طاقت کے ذریعے بغاوتوں کو دبانے کی حکمت عملی تاریخی طور پر ناکام رہی ہے اور اس کے نتیجے میں مزید نوجوان بلوچ شدت پسند گروہوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لہازا ریاست کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ فوج کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات بی ایل اے کے پروپیگنڈے کا ایندھن نہ بن جائیں، جو بلوچ عوام کی شکایات کو بھڑکانے کے لیے پہلے ہی کوشاں ہے۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس پس منظر میں دو مرتبہ کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے بلوچستان میں امن کی بحالی میں کردار ادا کرنے کا حالیہ عزم ایک سیاسی حل کی طرف ممکنہ راستہ فراہم کرتا ہے۔ بلوچستان کا بحران محض عسکری طاقت سے حل نہیں ہو سکتا؛ اس کے لیے ایک جامع اور جمہوری حکمت عملی درکار ہے۔ موجودہ شورش کی جڑیں 2006 میں مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی کے قتل سے جا ملتی ہیں۔ اس سخت گیر اقدام نے ایک ایسی بغاوت کو جنم دیا جو آج تک جاری ہے۔ اگرچہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے بلوچ عوام کی شکایات دور کرنے کی کوشش کی، لیکن بلوچ عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد اب بھی نازک ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ریاست کو اب ایک متوازن حکمت عملی اپنانا ہوگی— ایک ایسی حکمت عملی جو بی ایل اے جیسے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف مخصوص انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کے سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرے۔ اس کا مطلب ہے بلوچستان میں تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور روزگار کے مواقع میں سرمایہ کاری کرنا، صوبے کو اس کا جائز حق دینا اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنا۔ اسکے علاوہ ریاست کو ایسے ردِعمل سے بھی گریز کرنا چاہیے جو بلوچستان میں عوامی مزاحمت کو مزید بڑھائے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسائل تاریخی ناانصافیوں، محرومی اور سیاسی نمائندگی کے فقدان سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا واحد پائیدار حل ایک جامع جمہوری عمل میں مضمر ہے، جہاں بلوچ قیادت اور عوام کی آواز سنی جائے، ان کے مسائل حل کیے جائیں اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ دوسری صورت میں، مسلسل فوجی آپریشنز اور سیاسی جبر بلوچستان کو مزید بحران کی طرف دھکیلیں گے جس کا فائدہ ریاست کی بجائے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ہوگا۔

Back to top button