انقلاب کا دھڑن تختہ کرنے کے ذمہ دار بشری بی بی اور گنڈاپور کیوں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان کی فائنل احتجاج کی کال ناکام ہونے کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہوتے ہی اپنی جانیں قربان کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور دونوں ہی اپنے کارکنوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر خود پتلی گلی سے فرار ہو گئے۔

اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ کوئی سیکھنا چاہے تو 26 نومبر کو اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعات سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ 26 نومبر کو ہم نے دن کی روشنی میں عوامی ہجوم کے سامنے ریاست کی طاقت اور تمکنت کو ناصرف بے بس ہوتے بلکہ فرار ہوتے بھی دیکھا۔ ریاست نے ڈی چوک کلئیر کروانے کے لیے اپنی طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ 26 نومبر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں دو سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ وفاقی حکومت اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھی لہٰذا اس دن کے واقعات سے صرف ایک فریق کو نہیں بلکہ دونوں فریقین کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ وفاقی وزراء نے رات کے اندھیرے میں کریک ڈائون کے ذریعے تحریک انصاف والوں کو اسلام آباد سے بھگا کر اگلے دن اپنی فتح کا اعلان کیا اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو بھگوڑا قرار دیا۔ تحریک انصاف کے قائدین نے کہا کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کی زندگیاں بچانے کیلئے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔ 26 نومبر کو نہ تو وفاق نے صوبے پر فتح پائی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کے کارکن پارٹی قیادت کے کہنے پر اسلام آباد سے واپس گئے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ بطور ریاست اور بطور قوم یہ ہم سب کی شکست کا دن تھا۔ دن کی روشنی میں تمام ریاستی اداروں کی طاقت کو شکست ہوئی اور رات کے اندھیرے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش و جذبہ شکست کھا گیا کیونکہ پارٹی کی قیادت موقع سے فرار ہو گئی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی نئی سیاسی رہنما بشریٰ بی بی نے بار بار کہا تھا کہ وہ ہر صورت ڈی چوک پہنچیں گی اور اس وقت تک واپس نہیں جائیں گی جب تک عمران خان رہا نہیں ہوتے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا تھا کہ ہم نے گھر والوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم عمران خان کے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے اور گھر والوں سے کہہ دیا ہے کہ واپس نہ آئیں تو ہمارے جنازے پڑھ لینا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ مجھ سمیت بہت سارے صحافی حیران تھے کہ بشری بی بی کا قافلہ تمام رکاوٹوں کے باوجود ریڈ زون تک کیوں انے دیا گیا۔ اس سوال کا جواب دیتے یوئے پولیس، رینجز اور ایف سی والوں کا کہنا تھا کہ ہم نے شہر کے داخلی راستوں پر زیادہ مزاحمت اس لئے نہیں کی کیونکہ ہجوم بہت بڑا تھا جس میں عورتیں بھی شامل تھیں اور ہم پاکستانیوں کی لاشیں نہیں گرانا چاہتے تھے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ مجھے ایک اہم بات یہ پتہ چلی کہ اسلام آباد کے تمام راستے 23 نومبر کو بند کر دیئے گئے تھے سندھ، پنجاب اور آزاد کشمیر پولیس کے علاوہ رینجرز اور ایف سی کو بھی اسلام آباد بلایا گیا تھا۔ دوسرے صوبوں سے بلائے گئے پولیس کے ہزاروں جوانوں کو رات سونے کیلئے ٹینٹ لگا کر دیدیئے گئے لیکن ان کے کھانے پینے کا مناسب بندوبست نہیں تھا۔ دو تین دن تک انہوں نے اپنی جیب سے کھایا پیا، اسلام آباد مہنگا بھی ہے اکثر پولیس والوں کے پیسے بھی ختم ہو گئے۔ 26 نومبر تک یہ تھک چکے تھے جب ان کے حالات کا علم صدر آصف زرداری کو ہوا تو انہوں نے سندھ کے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ اگر اسلام آباد پولیس آپ کے جوانوں کا خیال نہیں رکھ سکتی تو ان کے کھانے پینے کا بندوبست آپ کریں۔

24 نومبر احتجاج : پی ٹی آئی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

حامد میر کہتے ہیں کہ 26 نومبر نے تمام ریاستی اداروں کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم تحریک انصاف کا احتجاج نہیں روک سکا۔ میڈیا پر ریاست کا کنٹرول تحریک انصاف کے بیانیے کو شکست نہیں دے سکا۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کی ساکھ بڑی طرح مجروح ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف بظاہر اب بھی ایک پاپولر جماعت نظر آتی ہے لیکن اس کے کارکن عمران خان کے سوا کسی دوسرے رہنما پر اعتماد نہیں کرتے اور 26نومبر کے بعد اس جماعت کے وہ سب قائدین کارکنوں کی نظروں میں مشکوک ہیں جو گرفتار نہیں ہوئے؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا خیبر پختونخوا میں گورنر راج اور تحریک انصاف پر پابندی کسی مسئلے کا حل ہے؟ مجھے خدشہ ہے کہ تحریک انصاف کے مایوس کارکنوں کی ایک بڑی تعداد واپس جا کر ریاست دشمن عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں کھلونا بن سکتی ہے۔ جب بھی سیاسی جماعتیں اور جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں تو شدت پسند اور مسلح گروہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔

Back to top button