بی ایل اے نے پشتون مزدوروں کی موت کی ذمہ داری کیوں نہیں لی؟
بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقے ضلع دکی میں بلوچ دہشت گردوں کے حملے میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 21 مزدوروں کی ہلاکت کے بعد ریاستی ناکامی کیخلاف عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
کوئٹہ سے 225 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ضلع دکی میں 10 اکتوبر کی شب ہونے والے واقعے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ ماضی میں اس نوعیت کے اکثر حملوں کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں خصوصا بلوچستان لبریشن آرمی یا اس کا مجید بریگیڈ قبول کرتا رہا ہے۔ تاہم اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس حملے میں زیادہ تر پشتون مارے گئے ہیں، سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں پنجابی مارے جاتے تھے اور بی ایل اے انکی ذمہ داری بھی قبول کر لیتی تھی۔ یاد ریے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 60 سے زائد غریب مزدور ہلاک ہو چکے ہیں جو روزگار کی خاطر بلوچستان آئے ہوئے تھے۔
عسکریت پسندوں کے اس تازہ حملے کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں میں مظاہرین نے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سولات اٹھائے ہیں۔ دکی میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین نے فرنٹیر کور بلوچستان کے مقامی کیمپ افس کے باہر بھی شدید احتجاج کیا اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم یونائٹڈ ورکرز فیڈریشن کے مرکزی رہنما پیر محمدکہتے ہیں کہ بلوچستان کے مائن ورکرز حکومتی غفلت کی وجہ سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انکا کہ ا تھا کہ کوئلے کی کانوں پر بلوچ عسکریت پسند مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ مائن ورکرز کو نہ حکومت کوئی سکیورٹی مہیا کر رہی ہے نہ ہی مائن مالکان۔ دکی میں جو لوگ عسکریت پسندوں کی بربریت کا نشانہ بنے ہیں ان کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا۔
انکا کہنا تھا کہ صوبے میں بے گناہ محنت کشوں کا بلاوجہ خون بہایا جارہا ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر اس صورتحال کو بہتر بنانے پرکوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ پیر محمد کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کوئلے کی کانوں کی سکیورٹی کے لیے حکومت جو خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے، اس سے صورت حال میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ان کے بقول، صوبے میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 70 ہزار سے زائد مزدوروں کی جانیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ عدم تحفظ کی وجہ سے ہزاروں لوگ یہاں سے پہلے ہی کام چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔ انکے مطابق اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو صوبے میں کان کنی کا شعبہ یکسر تباہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران خان مرتضی کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث بلوچستان میں شورش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔انکے مطابق بلوچستان میں قیام امن کی مخدوش صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں بنائی جاسکتی جب تک یہاں حکومتی فیصلے زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہوں گے۔ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں، جس میں ایک عام آدمی خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہا۔ اگر سیاسی معاملات طاقت کے بل بوتے پر حل ہوتے توآج بلوچستان میں حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے۔ انکا کہنا تھا کہ جو عناصر قیام امن کی صورت حال سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کا مقصد اس خطے کو عدم استحکام کا شکار بنانا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے جو پلان مرتب کیا ہے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انکے مطابق بلوچستان میں قیام امن کی صورتحال خراب ہونے سے حکومت پر دباؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں غیرملکی سرمایہ کاری پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی سطح پر جامع اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پشتون علاقوں میں بڑھتی ہوئی شورش کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ دفاعی امور کے ماہر میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملے مقامی بلوچ اور پشتون قبائل کو آپس میں بہ دست و گریبان کرنے کی ایک سازش معلوم ہوتی ہے۔ عمرفاروق کا کہنا تھا کہ دکی میں مزدوروں پر حملہ ان حملوں کا تسلسل ہے جو کہ اس سے قبل صوبے کے دیگر شمال مشرقی علاقوں میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان کے بقول، بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ یہاں ترقیاتی عمل کو ثبوتاژ کرنے کے لیے بھی مزدروں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں تاکہ صوبے میں ایک غیریقینی صورتحال پیدا کی جاسکے۔
دوسری طرف گورنر بلوچستان جعفر مندوخیل اور صوبائی وزراء نے کوئٹہ میں ایک مشترکہ نیوز بریفنگ میں بتایا کہ بدامنی میں ملوث گروپوں کے خلافبلوچستان میں ٹھوس بنیادوں پر کارروائی کے لیے حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف بھی اگلے ہفتے کوئٹہ کا خصوصی دورہ کریں گے جس کے دوران انہیں امن وامان کی صورت حال اور عسکرپت پسندوں کے خلاف جاری کارروائی پر بریفنگ دی جائے گی۔