فیض حمید نے مریم کے ہوٹل کمرے کا دروازہ کیوں تڑوایا تھا؟

18 اکتوبر 2020 کی رات کو کراچی میں ایک فایئو سٹار ہوٹل میں گھسنے کے بعد مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو گرفتار کرنے کا حکم تب کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے دیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ عمران خان کی وزارت عظمی کا زمانہ تھا اور کیپٹن صفدر کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کارکنوں کے ساتھ مزار قائد پر نعرہ بازی کی تھی۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار جاوید چوہدری اپنی ایک تحریر میں یہ انکشاف کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آئی ایس آئی کراچی کے افسران رینجرز پارٹی کے ساتھ ہوٹل پہنچے‘ کمرے کا دروازہ توڑا اور مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سلیپنگ سوٹ میں گرفتار کر لیا۔ سیکورٹی ادارے کے اہلکار کیپٹن صفدر کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے لے گئے جب کہ مریم نواز انہیں روکتی رہ گئیں‘ لہٰذا میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ اور ن لیگ نے شورشرابہ شروع کر دیا۔
اس واقعے کی مزید معلومات سامنے آئیں تو پتا چلا کیپٹن صفدر کی نعرہ بازی کی فوٹیج جب فیض حمید تک پہنچی تو انہوں نے کراچی کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئرحبیب نواز کو فون کر کے حکم دیا کہ صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کراؤ‘ اسے اٹھاؤ اور حوالات کے فرش پر بٹھا کر اس کی تصویر مجھے بھیجو۔ سیکٹر کمانڈر نے متعلقہ ایس ایس پی کو فون کر کے نعرے بازی پر ایک ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔
ایس پی نے تھوڑا وقت مانگا اور معاملہ آئی جی مشتاق مہر کے نوٹس میں لے آیا‘ آئی جی نے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے بات کی‘ شاہ صاحب نے آئی جی کو ایف آئی آر اور گرفتاری سے روک دیا۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ سیکٹر کمانڈر نے تھوڑی دیر بعد ایس ایس پی کو دوبارہ فون کیا تو اس نے ایف ائی آر درج کرنے سے معذرت کر لی اور آئی جی سے رابطے کا مشورہ دے دیا۔ سیکٹر کمانڈر نے آئی جی کو فون کیا تو مہر مشتاق نے سیکٹر کمانڈر کو سمجھایا کہ سر کیپٹن صفدر مریم نواز کے ساتھ رہائش پزیر ہیں‘ پنجاب بڑا صوبہ ہے‘ اور مریم نواز کے ساتھ بدتمیزی کو آسانی سے ہضم نہیں کرے گا‘ دوسرا یہ کہ سندھ کی سیاسی قیادت بھی ہمیں اجازت نہیں دے رہی۔ تاہم سیکٹر کمانڈر ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اصرار کرتا رہا، چنانچہ نے آئی جی پر زور دیا لیکن انہوں نے وزیراعلیٰ سے مشورے کا بہانہ کر کے فون بند کر دیا۔
اس دوران فیض حمید نے فون پر سیکٹر کمانڈر سے پوچھا کہ صفدر ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ سر مشتاق مہر نہیں مان رہا‘ ہم نے اس پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا لیکن وہ انکاری ہے‘ اسے مراد شاہ نے روک دیا ہے۔ اس جواب پر فیض برا منا گئے اور غصے سے بولے تم سے یہ ذرا سا کام بھی نہیں ہوا‘ کیا میں اسلام آباد سے ٹیم بھجواؤں‘ مجھے رزلٹ چاہیے‘ آئی جی کو جگائو‘ ایف آئی آر درج کرواؤ اور اسے ہوٹل سے گھسیٹتے ہوئے تھانے لے کر جائو‘ مجھے آدھ گھنٹے میں ہر چینل پر بریکنگ نیوز چاہیے‘ تم دونوں میاں بیوی کو سلیپنگ سوٹ میں منہ چھپاتا ہوا دکھائو گے اور میں یہ سین دیکھ کر سوئوں گا۔
جاوید چوہدری کے بقول سیکٹر کمانڈر نے پوچھا کہ سر اگر آئی جی نہیں مانتا تو پھر کیا کرنا ہے؟ اس پر جنرل فیض نے حکم دیا کہ تم اسے بھی اٹھا لو اور اگر مراد شاہ مزاحمت کرے تو اسے بھی اٹھا لو‘ تم سب کے سامنے قائد کے مزار کی توہین ہوئی اور تم اس پر خاموش ہو‘ کل کو اگر ان لوگوں نے قائد کی ہڈیاں نکال لیں تو پھر کیا کریں گے؟ اٹھائو جس کو بھی اٹھانا پڑے‘ مجھے صرف رزلٹ چاہیے۔
چنانچہ سیکٹر کمانڈر کی ٹیم آئی جی ہاؤس گئی اور مشتاق مہر کو سلیپنگ سوٹ میں اٹھا کر دفتر لے آئی۔ جب تک آئی جی نے پولیس افسران بلا کر کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرائی انہیں سیکٹر کمانڈر کے دفتر میں بٹھائے رکھا گیا‘ آئی جی نے ایف آئی آر کر کے اپنی جان چھڑائی جس کے بعد سیکٹر کمانڈر کی ٹیم اور رینجرز والے ہوٹل گئے‘ انہوں نے مریم نواز اور صفدر کے دروازے پر دستک دی‘ جب دروازہ نہیں کھلا تو یہ لوگ تالہ توڑ کرکمرے میں داخل ہو گئے‘ بریکنگ نیوز چینلز تک پہنچی‘ جنرل فیض نے بارہ چینلز پر خبر دیکھی اور اس کے بعد لائیٹس آف کر کے سو گئے۔
لیکن جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اگلا دن طوفانوں کے ساتھ طلوع ہوا‘ ن لیگ نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ ٹی وی چینلز بھی چیخ پڑے‘ ہم پیپلز پارٹی پر ہزار تنقید کریں لیکن یہ پارٹی خواتین کے حقوق کے معاملے میں دوسری جماعتوں سے مختلف ہے‘ بلاول بھٹو نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا‘ مراد علی شاہ اور آئی جی کو بلا کر پوچھا گیا‘ آئی جی نے پوری بات صاف صاف بتا دی‘ وہ اس وقت احساس توہین کا شکار تھا‘ اس نے بلاول بھٹو کو اپنا استعفیٰ بھی پیش کر دیا‘ بلاول نے یہ معاملہ وزیراعظم اور آرمی چیف تک لے جانے کا فیصلہ کیا‘ اس دوران آئی جی کی بے عزتی کی خبر سندھ پولیس کے افسروں تک پہنچ گئی چنانچہ سندھ پولیس کے 10 اے آئی جیز‘ 16ڈی آئی جیز اور 40 ایس ایس پیز نے چھٹی کی درخواست دے کر حکومت پر عدم اعتماد کا اعلان کر دیا۔ صورت حال خطرناک ہوئی تو بلاول بھٹو نے جنرل باجوہ کو فون کیا اور شدید احتجاج کیا‘ باجوہ اس حرکت سے واقف نہیں تھے‘ انہوں نے فوری طور پر کورٹ آف انکوائری بٹھا دی۔ باجوہ نے آئی جی کو فون کر کے معذرت کی‘ انہیں تسلی دی اور سینئر افسروں ک چھٹی کی درخواستیں ہولڈ کرنے کا کہا‘ بہرحال قصہ مختصر، کورٹ آف انکوائری نے تحقیقات کیں اور فیض حمید‘ سیکٹر کمانڈر کراچی اور رینجرز کے افسروں کو ذمہ دارقرار دے دیا۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ثابت کر دیا کہ فیض حمید بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور انہیں اب کنٹرول کرنا ضروری تھا‘ چنانچہ انہیں مدت پوری ہوتے ہی ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ دوسری طرف فیض حمید کے احکامات کی سزا کراچی کے سیکٹر کمانڈر اور رینجرز کے افسروں کو دی گئی‘ انہیں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ یوں ان کا کیریئر ختم ہو گیا اور یہ لوگ پروموٹ نہ ہو سکے۔ کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ اور ذمہ دار افسروں کی ٹرانسفر کا فیصلہ 10 نومبر 2020ء کو آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے ذریعے جاری کیا گیا۔ سینیئر صحافی کے بقول یہ فیض کے غرور اور اختیارات سے تجاوز کی ایک چھوٹی سی مثال ہے لیکن اس نوعیت کے سینکڑوں واقعات ہوئے‘ جنرل فیض کسی کو بھی اٹھا لیتے تھے‘ اسے ذلیل کرتے اور پھر عدالتوں سے سزا دلا دیتے تھے‘یہ ان کا معمول تھا‘ یہ وہ وقت تھا جب فوج کے اپنے لوگ بھی فیض حمید سے گھبراتے تھے‘ فون ٹیپ کرنا‘ ویڈیو کلپس بنانا اور نہ ماننے والوں کو پھینٹا لگانا یا گولی مروانا ان کے لیے عام سی بات تھی۔ کسی بھی شخص کو عمر قید دلانا بھی فیض کے لیے ایک معمولی بات تھی۔
لیکن آج وہی شخص ڈیڑھ سال سے اپنے ہی ادارے کی قید میں ہے اور اسے اپنے جونیئر افسروں کے ہاتھوں 14 سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔ اب فیض اپنی سزا کے خلاف اس عاصم منیر کے سامنے اپیل کرے گا جسے آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے اس نے کیا کچھ نہیں کیا؟ یہ سزا ثابت کرتی ہے کہ طاقت اور تکبر صرف اللہ کی ذات پر اچھا لگتا ہے‘ جب انسان خود کو خدا سمجھنا شروع کر دے تو کبھی نہ کبھی قدرت کی پکڑ کا شکار ضرور ہوتا ہے‘ آپ اللہ کا انتقام دیکھیے‘ وہ شخص جو کبھی دوسروں کی بہو بیٹیوں کے بیڈروم کے دروازے توڑ کر انہیں سلیپنگ سوٹ میں اٹھوا لیتا تھا‘ وہ آج اپنے کمرے کا پردہ نہیں اٹھا سکتا‘ فیض حمید کل تک جن لوگوں کی یونیفارم اتروانا چاہتا تھا وہ آج تاحیات یونیفارم کے حق دار بن چکے ہیں جب کہ یہ اپنے اعزازات اور میڈلز سے بھی محروم ہو رہا ہے‘ توبہ یا پروردگار توبہ‘ یہ دنیا خوف ناک جائے عبرت ہے‘ اس میں ہر فرعون عبرت کی مثال بن کر رہ جاتا ہے اور فیض اللہ کی اس پکڑ کی تازہ ترین مثال ہے۔
