عمران خان نے اپنی تحریک انصاف کو انتشاری جماعت کیوں بنا دیا؟

تحریر: حسن نقوی

اڈیالہ جیل میں بند عمران خان 5 اکتوبر کو اپنی سالگرہ منا رہے ہیں، لیکن آج ان کی سیاسی زندگی پر ماضی کی کامیابیوں کے بجائے ملک دشمنی کے الزام کی پرچھائیاں گہری ہوتی چلی جا رہی ہیں، وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ماضی کی فوجی اسٹیبلشمینٹ انہیں تبدیلی اور امید کی علامت سمجھتی تھی، اسی لیے انہیں "پراجیکٹ عمران خان” کے تحت 2018 میں بد ترین دھاندلی کروا کر وزیراعظم بھی بنوایا گیا تھا، لیکن یہ عسکری تجربہ بری طرح ناکام ہوا اور فوج اسے آج دن تک بھگت رہی ہے۔ خان اپنی جان بچانے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے مسلسل فساد اور انتشار کو ہوا دے رہا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت 2010 کی دہائی میں تب بڑھی جب ائی ایس ائی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے پراجیکٹ عمران شروع کیا۔ اس کے بعد یہ پراجیکٹ ائی ایس ائی کے اگلے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے حوالے کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کو کامیاب کروانے اور عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کا سہرا جنرل قمر جاوید باجوا اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے سر بندھا۔ 2018 میں عمران خان کے قتدار میں آنے کو اسٹیبلشمینٹ نے روایتی سیاسی اشرافیہ کے خلاف ایک بڑی فتح کے طور پر اجاگر کیا۔ تاہم، عمران خان کی بطور حکمران نااہلی جلد عیاں ہو گئی اور موصوف ہائیبرڈ نظام حکومت کے باوجود اسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک بوجھ بن گئے جو انہیں اقتدار میں لائی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب کپتان نے جنگلی سانڈ کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو روندنے کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ کا رخ کیا۔ تاہم یہ ایک سنگین غلطی ثابت ہوئی اور وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ ہو گئے۔

2022 میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان کا رویہ اور حکمت عملی ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہی ہے، جس نے ان کے جمہوری اداروں کے ساتھ تعلقات کو بھی مشکوک کر دیا ہے۔
اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد سے، عمران خان نے مسلسل تصادم کی سیاست اپنائی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ جمہوری عمل کو تسلیم کرتے، انہوں نے خود کو سازش کا شکار قرار دے کر اس بیانیے کو فروغ دیا کہ ان کے خلاف بیرونی سازش ہوئی۔ پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اس دعوے کو مسترد کیا، لیکن اس بیانیے نے خان کے حامیوں کو متحرک کیا اور ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہنگامے شروع ہو گئے، خاص طور پر مئی 2023 میں ان کی گرفتاری کے بعد۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان کا رویہ عوامی مسائل کے حل سے زیادہ اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہے۔ عمران خان نے قومی بحرانوں کے دوران بھی اپنی سیاسی لڑائی کو جاری رکھا ہے۔ 2022 میں جب پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کو امدادی سرگرمیوں پر ترجیح دی۔ بجائے اس کے کہ وہ ملک کو متحد کرتے، انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سیلاب کے بحران کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے رپورٹ کیا کہ سیاسی انتشار، جو زیادہ تر عمران خان کے احتجاج کی وجہ سے پیدا ہوا، پاکستان کی امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنا۔ اسی طرح معاشی بحران کے دوران بھی عمران خان کی توجہ مسلسل احتجاج پر رہی، جس سے معیشت کی بحالی کے عمل میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔

معاشی ماہرین کے مطابق عمران خان کے پیدا کردہ مسلسل سیاسی عدم استحکام نے حکومت کے لیے ضروری اصلاحات کا نفاذ مشکل بنا دیا ہے۔ خان کی سیاست نے غیر یقینی صورتحال کو بڑھا دیا ہے، جس سے سرمایہ کار دور ہو رہے ہیں اور معیشت کی بحالی کا عمل مزید مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ تشویشناک بات عمران کا عدلیہ اور فوج جیسے اداروں کے ساتھ کھلا ٹکراؤ ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر مسلسل بے بنیاد الزامات نے ان دونوں اداروں سے ذیادہ عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطانق عمران خان کے الزامات اور انتشاری سیاست نے سول اور فوجی قیادت کے درمیان پہلے سے نازک توازن کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ انکا کہنا یے کہ خان کی مسلسل محاذ آرائی سے اہم ریاستی ادارے کمزور ہو رہے ہیں، اور اس کے طویل المدتی نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ عمران کی حالیہ سیاست سے پاکستان کے جمہوری اداروں پر اعتماد متزلزل ہوا ہے، اور ان کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس سے جمہوری نظام کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایسے میں عمران خان کی سالگرہ کے موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی میراث کیا ہوگی؟ کیا وہ ایک ایسا رہنما بن کر ابھریں گے جس نے تبدیلی لائی، یا ایک ایسا سیاستدان جو ذاتی مفادات کی خاطر ملک میں تقسیم کا باعث بنا؟ ان کی سیاسی طاقت بے شک ابھی بھی برقرار ہے، لیکن ان کی تصادم کی حکمت عملی نے پاکستان کی سیاسی اور معاشی استحکام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ درحقیقت اس وقت پاکستان کو یکجہتی اور مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، عمران خان کی مخالفت کرنے والی قوتوں کا ماننا ہے کہ انکی انتشاری سیاست ملک میں تقسیم کو مزید بڑھا رہی یے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ وہ اپنے رویے میں نرمی لاتے ہیں یا اپنے انتشار پسندانہ رویے کو جاری رکھتے ہیں، لیکن اس کا اثر نہ صرف ان کی سیاست پر بلکہ پاکستان کے مستقبل پر بھی ہوگا۔

Back to top button