عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک پر یوٹرن کیوں لے لیا ؟
عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان کے بعد اسے مؤخر کرنے کے فیصلے کو ان پارٹی رہنماؤں کی جانب سے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے جو سمجھتے تھے کہ سول نافرمانی کی تحریک بھی پچھلے احتجاج کی طرح ناکام ہو جائے گی۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو دھیرے دھیرے اب یہ سمجھ آ رہی ہے کہ جارحانہ سیاست کے بجائے مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں جن کے لیے وہ ایک کمیٹی بھی تشکیل دے چکے ہیں۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ 26 نومبر کے ناکام احتجاج اور جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ فائل ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے بھی دفاعی پوزیشن اختیار کر لی ہے۔ عمران نے ‘ایکس’ پر جاری بیان میں سول نافرمانی کی تحریک کو موخر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انکی جماعت نے ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق جدوجہد کی ہے مگر ملک پر مسلط مافیا ہمیشہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام اور انڈر ٹرائل اسیران کی رہائی کا مطالبہ دہراتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک چند روز کے لیے مؤخر کر رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی ایک بیان میں فریقین کے درمیان مذاکرات کے لیے ثالثی کی پیش کش کی ہے۔
دوسری جانب تحریکِ انصاف نے عمران خان اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کے لیے اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی اپنی صفوں میں پالیسی کے معاملے پر ابہام ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کے ‘فال آؤٹ’ سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی میں خامیاں تھیں جس کا بہت سے پارٹی رہنماؤں کو ادراک ہو رہا ہے۔
مظہر عباس کے بقول شاید عمران خان کو بھی احساس ہوا ہے کہ 26 نومبر والی کال بغیر تیاری کے تھی اور وہ صحیح معنوں میں حکمتِ عملی نہیں بنا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں اَب یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ آخر کب تک لڑیں گے، لہذا بات چیت کا دروازہ کھولا جائے۔ مظہر کے خیال میں ایسا لگتا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک عمران خان نے غصے میں آ کر یا جذبات میں آ کر دے دی تھی اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت پر دباؤ کیسے بڑھایا جائے۔
اینکر پرسن کامران شاہد سمجھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی دو متوازی پالیسیاں چل رہی ہیں۔ ایک جانب عمران خان اور دوسری جانب تحریکِ انصاف کی موجود قیادت کی سوچ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے جیل جانے سے قبل تحریکِ انصاف کی پالیسی ایک ہی تھی۔ لیکن جب سے پارٹی میں وکلا اور بشریٰ بی بی کی انٹری ہوئی ہے، پالیسی میں بھی ابہام نظر آتا ہے۔ کامران شاہد کے بقول عمران کے بغیر تحریکِ انصاف کی کوئی پالیسی نہیں چل سکتی، لیکن جب سے وہ جیل گئے ہیں اس کے بعد سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ قیادت عمران کی جارحانہ پالیسی سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہی۔
خیال رہے کہ چند روز قبل ایک بیان میں چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر خان نے کہا تھا کہ "بس بہت ہو گیا، اب ملک کو بہتری کی طرف بڑھانا چاہیے۔” گوہر خان نے کہا تھا کہ ہم نے مذاکرات کے لیے شرائط نہیں رکھیں بلکہ کچھ مطالبات ہیں۔ مظہر عباس کے بقول تحریکِ انصاف کے اندر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی رائے یہ ہے کہ پارٹی کو ‘سولو فلائٹ’ نہیں کرنی چاہیے جس سے وہ تنہا ہو جائیں۔ اُن کے بقول تحریکِ انصاف نے اب یہ محسوس کیا ہے کہ محمود خان اچکزئی کے ذریعے باقی جماعتوں سے بھی رابطے کیے جائیں۔ سیاسی مبصرین کی رائے میں لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ سے تحریکِ انصاف نے یہ بھانپ لیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی قسم کی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔
کامران شاہد کہتے ہیں کہ عمران خان کو جسٹس منصور علی شاہ سے بھی بہت اُمیدیں تھیں۔ لیکن وہ بھی چیف جسٹس نہیں بن سکتے جب کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ میں کئی تبدیلیاں کر دی گئیں جس سے عمران خان کی مایوسی مزید بڑھی۔ کامران شاہد کہتے ہیں کہ عمران خان کو یہ مایوسی بھی ہے کہ 26 نومبر کے احتجاج کے لیے پنجاب سے بڑی تعداد میں لوگ نہیں نکلے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران کی پالیسی یہی تھی کہ انکے ساتھی 26 نومبر کو اسلام آباد پہنچ کر بیٹھ جائیں گے اور مذاکرات کریں گے۔ لیکن بشریٰ بی بی کارکنوں کو ڈی چوک لے گئی جو کہ عمران خان کی ہدایت نہیں تھی اور یوں سارا کھیل چوپٹ ہو گیا۔
عمران خان سول نافرمانی کی دشمنانہ خواہش پوری کرلیں : عطاء تارڑ
سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں جیل سے باہر آنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ ماضی میں عدلیہ سے عمران کو ریلیف مل رہا تھا جو ائینی عدالت بننے کے بعد ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں ان کی اخری امید مذاکرات سے ہی وابستہ ہے تاکہ وہ کوئی این آر او حاصل کر سکیں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا اسٹیبلشمنٹ اور اتحادی حکومت ان سے مذاکرات پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔۔۔