عمران خان نے مذاکرات شروع کرنے میں بہت دیر کیوں کر دی ؟
اڈیالہ جیل میں بند عمران خان نے نو مئی کے حملوں کے الزام میں فیض حمید کے چارج شیٹ ہو جانے کے بعد حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ تو کر لیا لیکن شاید انہوں نے بہت دیر کر دی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کو خود بھی بہت جلد سانحہ 9 مئی کے الزام میں ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے۔
مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کے بعد وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ تحریکِ انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات بہت ‘سازگار ماحول’ میں ہوئے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ہمیشہ کی طرح مذاکرات کا اصل وقت احتجاج میں گزار دیا اور مل بیٹھنے پر تب ہم امادہ ہوئے جب وہ سیاسی طور پر بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی فریقین کے درمیان بداعتمادی بہت ذیادہ بڑھ چکی ہے، لہٰذا مذاکرات سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں کرنی چاہیے، خصوصا جبکہ اگلے چند ہفتوں میں عمران خان کو مختلف کیسز میں سزائیں سنائی جانے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ اپریل 2022 میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عمران خان کی جماعت اور حکومت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس سے قبل عمران حکومت سے مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کرتے تھے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات چیت پر اصرار کرتے تھے۔ تاہم بار بار۔کے ناکام احتجاجوں اور فوج کی جانب سے مسلسل لال جھنڈی دکھائے جانے کے بعد عمران خان حکومت سے مذاکرات پر مجبور ہو گئے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں پہلا مذاکراتی اجلاس قومی اسمبلی میں منعقد ہوا جس میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکان نے شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے آئندہ اجلاس دو جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا ہے جس میں حزبِ اختلاف ’اپنے مطالبات تحریری صورت میں حکومت کو دے گی۔‘ اعلامیے کے مطابق اجلاس ’سازگار ماحول میں ہوا اور فریقین نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ان کا بنیادی مطالبہ عمران خان کی رہائی تھا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات میں عمران خان کو این آر او دینے کا ایجنڈا شامل نہیں ہوگا۔
سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مذاکرات کا آغاز یقینی طور پر امید افزا بات ہے لیکن اس عمل کو کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ابھی بہت سے مراحل آئیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف اور حکومت کے مطالبات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس عمل سے فوری نتائج نکلنا مشکل ہے اور کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بعض مطالبات اگرچہ حکومت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے لیکن بعض ایسے مطالبے ہیں جن پر فوری عمل کیا جا سکتا ہے۔ اُن کے بقول 26 نومبر کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل پر حکومت کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کے دوران 278 افراد کی اموات کا دعوی پہلے ہی جھوٹا ثابت ہو چکا ہے۔
تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا اتحادی حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات پر اپوزیشن کو کوئی ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پی ٹی آئی کو حکومت سے بات چیت کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مذاکرات کے حوالے سے انکاری رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران نے گزشتہ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی شہباز شریف کی مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کیا اور آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی بات چیت کی پیش کش کو اہمیت نہیں دی۔ انکے بقول عمران بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتے تھے اور اگر مذاکرات چاہتے تھے تو وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرتے تھے۔ لیکن جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعد سے سابق وزیر اعظم کے رویے میں اچانک تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنی احتجاجی کالز کی بار بار ناکامی کے بعد اپنی سوچ تبدیل کی ہے اور اب فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنے کے مطالبے سے ہٹ کر وہ حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کو اندازہ ہے کہ گزشتہ دو سال کی محاذ آرائی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا۔ لہذا دونوں جانب اگر نیت ٹھیک ہو گی تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ سینئیر صحافی سمجھتے ہیں کہ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کے آغاز کے بعد عمران کی حکمتِ عملی میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی عوامی احتجاج سے بھی متوقع نتائج حاصل نہیں کر سکی اور 26 نومبر کے اسلام آباد مارچ کا منصوبہ بھی زیادہ کامیاب نہیں رہا۔
عمران دور میں فوجی عدالتوں نے کن 29 سویلینز کو سزائیں سنائیں؟
لیکن سوال یہ ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں حکومت تحریکِ انصاف کو کیا کوئی رعایت دے سکتی ہے؟یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات پر کوئی ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہے؟
مذاکرات کے پہلے دور کے بعد بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے بتایا کہ ان کی طرف سے مطالبات واضح طور پر سامنے رکھے گئے جن میں سرِ فہرست ’عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے۔
اُن کے بقول ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر انکوائری کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کسی بھی صورت نہ تو عمران کو رہا کرنے کا رسک لے گی اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے چونکہ یہ معاملہ عدالتوں نے طے کرنا ہے۔ لہٰذا حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔