عمران کی پارٹی کھل کردہشت گردوں کے ساتھ کیوں کھڑی ہو گئی؟

ملک میں حالیہ بدامنی کی لہر میں یوتھیوں کا مکروہ کردار کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ جہاں ایک طرف وہ دہشتگردی کے مختلف واقعات میں شرپسندوں کی مذمت کی بجائے بھارت کے ہمنوا بن کر سیکیورٹی فورسز پر الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں وہیں دوسری طرف افغانستان بارے وفاق کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئےشرپسند افغان باشندوں کی وکالت کرتے اور ملک کی سیاسی و داخلی انتشار کا شکار بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ دہشتگردی بارے پی ٹی آئی کی ریاست مخالف حکمت عملی سامنے آنے کے بعد دہشتگردوں کی ٹھکائی کے ساتھ ساتھ شرپسند عناصر کے سہولتکاروں کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

مبصرین کے مطابق عمرانڈو جہاں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ملک میں دہشت گردوں کیلئے ماحول کو سازگار بناتے نظر آتے ہیں وہیں پی ٹی آئی مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے ریاستی اداروں سے عوام کو بدظن کرنے اور دراڑیں ڈالنے کی مذموم کوششیں میں مصروف عمل نظر آتی ہے تاکہ معاملہ چاہے ملکی ترقی کا ہو یا انسانی جانوں کے ضیاغ کا ، اس کو اپنے ناپاک عزائم کی نذر کیا جاسکے۔

ناقدین کے مطابق عمرانڈوز کی یہ حکمت عملی سیاست کی آڑ میں کھلی ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔ اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے پی ٹی آئی کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان اور ریاستی اداروں کو دنیا میں بدنام کیا جائے، اس غیر سیاسی ریاست دشمن حکمت عملی ہی وجہ سے نہ انہوں نے عدلیہ کو چھوڑا نہ دفاعی اداروں کو بخشا۔ یہ کونسی سیاست اور جمہوریت ہے کہ ہم نہیں تو ملک بھی نہ ہو۔

مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جعفر ایکسپریس کے واقعہ پر بھی اظہار افسوس اور دہشت گردوں پر لعنت بھیجنے کی بجائے بھارتی جھوٹے اور ناپاک پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ دہشتگردوں کے خلاف کامیاب آپریشن پر سیکورٹی فورسز کی تعریف اور ان سے اظہار یکجہتی و حوصلہ افزائی کے بجائے بدنام اور کمزور کرنے کی ناپاک اور مذموم کوشش کی۔ مبصرین کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جانوں کی جتنی قربانیاں پاک فوج دے رہی ہے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی سیاست کے نام پر دنیا کی واحد جماعت ہے جو ملک کی اسی نامور فوج کے خلاف مکروہ پروپیگنڈہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

ناقدین کے مطابق جب بھی ملکی یکجہتی اور امن و امان کے لئے دہشت گردی کے خلاف کوئی اجلاس بلانے کا معاملہ ہو پی ٹی آئی اس ریاستی مفاد کے حامل اجلاس میں شمولیت کیلئے بھی شرائط رکھ دیتی ہے۔ ناقدین کے مطابق حالیہ دنوں حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تو یوتھیے رہنماؤں نے اس میں شمولیت کیلئے بھی بانی ہی ٹی آئی عمران خان کو رہا کرنے اور ان کی شرکت کو لازمی بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کھل کر کہتی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور دہشت گردی کا خاتمہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے ساتھ مشروط ہے گویا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور بدامنی کا یہ کھلا اعتراف ہے لیکن ابھی تک انکے خلاف سوائے عدالتی تاریخیں دینے اور ضمانتوں میں توسیع پر تو سیع دینے کے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی جو کہ حیران کن ہے۔ حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈہ مہم چلانے والوں کے خلاف جو جے آئی ٹی بنائی گئی ہے وہ بھی پیشی پیشی کھیلنے میں مصروف ہے۔ بار بار پی ٹی آئی کے لوگوں کو بلایا جاتا ہے بیانات کے نام پر گپ شپ ہوتی ہے بات چیت ہوتی ہے اور سب اُٹھ کر چلے جاتے ہیں بشری بی بی تو اس جے آئی ٹی کو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ مبصرین کے مطابق جے آئی ٹی والے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انکے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور پی ٹی آئی کے بلائے گئے رہنماؤں کو وہ ثبوت دکھائے بھی گئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام ثبوت موجود ہیں پھر پیشی پر پیشی کے لئے بلانے کے بجائے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ عدالتوں میں تاریخیں، بحث مباحثے، دلائل اور ضمانتوں میں توسیع پر توسیع اور جے آئی ٹی میں پیشی پیشی کا کھیل کب تک چلے گا اگر حکومت کے پاس بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنماؤں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت اور شواہد نہیں ہیں تو پھر عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات ختم کیوں نہیں کئے جاتے ، پھر تو یہ محض وقت گزاری ہے جس میں نقصان ملک اور دفاعی اداروں کا ہو رہا ہے جو ملکی ترقی میں رکاوٹ اور پاک فوج کی قربانیوں کی بے قدری کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ تاہم اگر شرپسند یوتھیوں کے خلاف حکومت کے پاس ثبوت اور شواہد موجود ہیں تو حکومت ان کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے میں لیت ولعل سے کیوں کام لے رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق جے آئی ٹی کے نام پر بلاوےاور پیشیوں کا چکر بھی اب کسی منطقی انجام کوپہنچنا چاہئے ۔ ان سب معاملات کو کسی ایک طرف کرکے خاتمہ ہونا چاہئے تاکہ کچھ توبے سکونی کم ہوجائے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ملکی ترقی اور استحکام کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہے تاہم یہ صرف بیانات، اے پی سی اور نیشنل ایکشن پلانوں سے ہر گز نہیں ہوگا۔ اگر اے پی سی کے نام پر نشستن، گفتن اور برخاستن والا معاملہ ہوگا تو یہ ملک وقوم اور پاک فوج کے ساتھ مذاق ہی سمجھا جائے گا۔ اب حکومت کیلئے عسکری اداروں کے سربراہان کے ساتھ اجلاس کرنے، ٹھوس لائحہ عمل بنانے اور سخت کارروائی پر عملدرآمد کرنے کا وقت ہے۔ مبصرین کے مطابق ملک کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور حمایتیوں کا قلع قمع کرنے اور دہشت گرد اور ان کے ہینڈلرز جہاں بھی ہوں انکی سرکوبی اور خاتمہ کرنے سے ہی اس ناسور سے ملک کو چھٹکارا مل سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ملک میں دہشتگردی کے خاتمے بارے پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے پی غیر قانونی افغانیوں کی ملک بدری کی حمایت و تعاون کرنے کے بجائے افغانیوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں اور کھل کر انکی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ افغانوں کو بیدخل کرنے کے بجائے ان کو پاکستانی شہریت دی جائے ۔ وزیر اعلیٰ گنڈا پور کو صوبے میں دہشت گردی کی روز بروز بڑھتی وارداتیں، بے گناہ پاکستانیوں اور سیکورٹی اداروں بشمول کے پی پولیس کی قربانیوں کی کوئی پروا نہیں۔ مبصرین کے مطابق موجودہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ حکومت اور ادارے فوری حرکت میں آکر پہلے ملک کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کریں اس سے  نہ صرف ملک میں قیام امن کی راہ ہموار ہو گی بلکہ دہشت گردوں کی سرکوبی بھی آسان ہو جائے گی۔

Back to top button