اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں نورعالم کا جھگڑا کیوں ہوا؟
اسلام آباد کے میریئٹ ہوٹل میں میں 12 اپریل کی رات افطار ڈنر کے دوران تب ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی جب
تحریک انصاف کے ایک حمایتی نے پارٹی کے باغی رہنما نور عالم خان کو گالیاں دیں
اور جواب میں اس کی دھلائی ہوگئی۔ موصوف کی ٹھکائی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہیں اور مارنے اور مار کھانے والوں کے حمایتی سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے ساتھ لفظی جنگ میں مصروف ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے پاس فی الحال کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی ہے تاہم پولیس اس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں پیش آیا، جہاں نور عالم خان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی اور عمران خان کے سابق مشیر ندیم افضل چن کے ہمراہ افطار کر رہے تھے۔ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کا تعلق نور عالم خان کے حلقے پشاور سے ہے۔
اس شخص نے نور عالم کو پشتو میں مان بہن کی گالیاں دی تھیں۔ ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ گالیاں سننے کے باوجود نورعالم خاموشی سے افطار کرتے رہے لیکن وہ شخص باز نہ آیا اور دوبارہ گالیاں دیں، جب ہم نے اسے معذرت کرنے کو کہا تو اس نے پھر نور عالم کو گالی دی اور انہیں مارنے کے لیے لپکا جس کے بعد اس کی دھلائی ضروری ہوگئی تھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ہوٹل کا وہ زون ہے جہاں فیمیلیز افطار کر رہی ہیں۔ جب دونوں پارٹیوں کے مابین لڑائی شروع ہوئی تو افطار کرنے والوں نے ان کی ویڈیوز بنانا شروع کر دیں اور سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ نور عالم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ندیم افضل چن کی جانب سے بتائی گئی تفصیلات کو ہی ری ٹویٹ کیا ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر اس وقعے پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ ’فوٹیج میں سب کچھ واضح ہے کہ کیسے ایک بزرگ شہری کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے‘۔ علی زیدی نے کہا کہ ’کیا اب سپریم کورٹ اس واقعے پر کوئی کارروائی کرے گی یا خاموش ہی رہے گی کیونکہ انھوں نے اس واقعے کا نوٹس لیا تھا جس میں تحریک انصاف کا ایک ایم پی اے ملوث تھا۔‘
سماجی کارکن جبران ناصر نے ٹویٹ کیا کہ ’مجھے ان سیاسی رہنماؤں سے ہمدردی ہے جنھیں گالیاں دی گئیں مگر میں ان کے پرتشدد اقدام کی مذمت کرتا ہوں‘۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارا سیاسی کلچر زہریلا ہوچکا ہے مگر اس کا حل صبر میں ہے نہ کہ جوابی وار میں‘۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں خود متعدد جماعتوں کے کارکنان کی طرف سے ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر ’ہم نے کبھی تشدد سے اس کا جواب نہیں دیا۔‘ دوسری جانب نور عالم خان کے حمایتیوں نے لکھا ہے کہ تحریک انصاف والے تصور کریں اگر ایسی ہی گالیاں عمران خان کو دی گئی ہوتیں تو وہ اپنے مخالفین کا کیا حشر کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب چونکہ عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے لہذا انہیں بھی گالیاں کھانے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ نور عالم خان 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے پشاور کے حلقہ این اے تین سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ وہ 2018 کے الیکشن میں پشاور کے حلقہ این اے 27 سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔ اِنھوں نے مئی 2017 میں پیپلز پارٹی کو چھوڑ دیا تھا اور جہانگیر خان ترین سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ تب عمران خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘نور عالم کی اچھی شہرت سُنی ہے۔ انہوں نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا ہے لہٰذا اِن کو تحریکِ انصاف میں خوش آمدید کہتا ہوں۔’ تاہم تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد بھی نورعالم مسلسل حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے۔
الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی منحرف ارکان کیخلاف ریفرنسز ارسال
واضح رہے کہ نور عالم خان 2008 میں جب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے تو وہ امیر ترین رُکن اسمبلی قرار دیے گئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اِن کے چار ارب کے اثاثے تھے۔ نور عالم خان کی پی ٹی آئی حکومت سے تحفظات کی کہانی 2019 میں شروع ہوئی تھی۔ ایک موقع پر تحریکِ انصاف پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں عمران خان اور نور عالم خان کے درمیان سخت جملوں پر مبنی مکالمہ بھی ہوا تھا۔ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ ‘اِس وقت آپ پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہیں جبکہ آپ پی پی پی میں جب تھے تو اُن پر تنقید نہیں کرتے تھے۔’
جواب میں نور عالم نے کہا تھا کہ وہ اُس وقت بھی حکومت پر تنقید کرتے تھے۔
Why did Noor Alam quarrel at Marriott Hotel in Islamabad? video