پاکستانی اور افغان طالبان پاکستان کے لئے درد سر کیوں بن گئے؟
افغانستان میں افغان طالبان کہ برسراقتدار آنے کے بعد سے پاکستان میں تحریک طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی ہیں جن سے پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے۔اسلام آباد میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان کی دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی آنے کی بنیادی وجہ وجہ افغان طالبان کا انکے خلاف کوئی ایکشن نہ لینا ہے۔
انکا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو دیا جانے والا تحفظ پاکستانی ریاست کے لئے دردِ سر بن چکا ہے کیونکہ اس عجب طرز عمل سے نہ صرف پاک افغان تعلقات بری طرح متاثر ہو رہے ہیں بلکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ریاستِ پاکستان کو امید تھی کہ تحریک طالبان کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ لیکن ان تمام توقعات کے برعکس افغان حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے سے صاف انکار کر دیا اور حکومت پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا۔ لیکن مذاکراتی عمل بھی ناکامی کا شکار ہوگیا جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ پاک فوج کی جانب سے پاک افغان سرحد پر لگائی گئی سرحدی باڑ بھی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے میں ناکام ثابت نہیں ہو رہی کیونکہ طالبان کے پاس امریکی فوج کے چھوڑے ہوئے جدید وائر کٹرز موجود ہیں جن کی مدد سے وہ باڑ کاٹ کر سرحد پار کر لیتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ 15 اگست 2021 کو افغان دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات کی نوعیت میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ افغان طالبان کو اپنا مہمان قرار دیتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کرتی تھی لیکن اب کابل پر قابض افغان طالبان نے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو اپنا مہمان قرار دے کر انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی قریب میں افغان طالبان کی ثالثی میں ریاست پاکستان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات بھی کئے لیکن ایک مہینے کی عارضی جنگ بندی کے بعد ٹی ٹی پی نے دوبارہ دہشت گرد کارروائیاں شروع کر دیں لہٰذا اب افغان طالبان کے زریعے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان نے دوبارہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کیا تو اس سے پاکستانی ریاست کی رہی سہی رٹ بھی ختم ہوجائے گی۔ عسکری حکام کے مطابق اس وقت تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے صرف سفارتی سطح پر افغان حکومت سے بات چیت کی جا رہی ہے۔ تاہم پاکستان کو مثبت نتیجے کی کوئی امید نہیں ہے کیونکہ ٹی ٹی پی والے 20 سال تک افغان طالبان کے ہمراہ امریکہ کے خلاف افغانستان میں جنگ کا حصہ رہے ہیں، اس لیے وہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ماضی میں پاکستان کا مسلسل یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ تب پاکستان یہ الزام لگاتا تھا کہ کہ تحیک طالبان کو بھارتی فنڈنگ ملتی ہے لیکن افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے جسے پاکستانی خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغان طالبان بھی تحریک طالبان کی طرح پاکستان کے ساتھ سیدھے ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کے لیے نصب خار دار باڑ کو افغان اہلکار اکھاڑتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان ویڈیوز کے علاوہ افغان طالبان کی جانب سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے جن میں کہا گیا کہ وہ اس سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار سے فائرنگ کے واقعات اور ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے شہری علاقوں میں بڑے دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ افغان رہنماؤں کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات بھی سامنے آئے۔ ایک عسکری اہلکار نے انہی واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سرحد پر اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو ہم فوری طالبان حکومت سے رابطہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو روکیں۔ لیکن ہمیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہمارا ٹی ٹی پی پر کنٹرول نہیں ہے۔
جب پوچھا گیا کہ پاک افغان سرحد پر خار دار تار لگانے کے باوجود ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان میں کیسے داخل ہوجاتے ہیں تو بتایا گیا کہ امریکی اور نیٹو فورسز جانے سے قبل ایسے کٹرز بھی چھوڑ گئی تھیں جنھیں تحریک طالبان کے دہشتگرد سرحدی باڑ کاٹنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے پاس اب امریکی افواج کے تاریکی میں استعمال کیے جانے والے آلات بھی موجود ہیں جن کی مدد سے دہشت گردانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس طالبان کی جانب سے افعانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اب تک کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طالبان کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کی نوعیت روایتی نہیں ہے، وہ اپنے مخصوص انداز سے فیصلے کرتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی اسی انداز سے پیش آیا جائے۔ شاید پاکستانی حکام کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہو سکا اور اب تک روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ انہیں جب تک اس کا احساس نہیں ہو گا، اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس طریقے سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے جس کی پاکستان کو توقع ہے۔
پرستارکی اداکارمہوش حیات کو چھونے کی کوشش
پاکستانی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر نصب کردہ خاردار باڑ کو افغان طالبان کی مرضی سے کاٹا جاتا ہے جنہوں نے خود بھی ننگرہار، قندھار اور نیمروز کے کئی علاقوں سے باڑ ہٹائی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد سمیت کئی طالبان رہنماؤں نے آن دی ریکارڈ کہا کہ سرحد پر باڑ لگانے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ یہ سرحد نہیں بلکہ ایک عارضی لکیر ہے۔ پاکستان شاید اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جو طالبان حکومت سے رابطوں پر زور دیتا ہے لیکن طالبان کا اصرار ہے کہ پاکستان انکی حکومت کو تسلیم کرے لیکن اسکے عوض افغان بھی افغان طالبان حکومت پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کی یقین دہانی نہیں کروا سکی۔