پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں اپنے خالقوں کے ہاتھوں سے کیوں نکل گئیں ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دی جانے والی تحریک طالبان دراصل ہماری اپنی پیداوار ہے جو خالقوں کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے، ٹی ٹی پی بنانے سے پہلے مہاجر قومی موومنٹ تشکیل دی گئی جس پر بعد میں ملکی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دے کر پابندی عائد کر دی گئی، تاہم ایسی تنظیمیں بنانے والے باز نہیں آئے اور پھر تحریک لبیک پاکستان تشکیل دے ڈالی، بعد میں اس پر ریاست مخالف قرار دے کر پہلے پابندی لگائی گئی لیکن پھر دوغلی پالیسی کے تحت یہ پابندی واپس لے لی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج جناح کا پاکستان دہشت گردی کی آگ میں گھرا ہوا ہے اور ریاست یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں یا ان کے خلاف آپریشن کرنا ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں آج ملک کے دو حساس ترین صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ دراصل یہ صورتحال کم و بیش چالیس سال سے درپیش ہے، کبھی دہشت گردی کی شدت کم ہو جاتی ہے اور کبھی دھماکوں اور حملوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، دونوں کی نوبت مختلف ہی سہی مگر نشانہ دونوں ہی جگہ یا تو قانون نافذ کرنے والے ہیں یا عام آدمی اور سیاسی ومذہبی اکابرین۔ مظہر عباس سوال کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ درجنوں فوجی آپریشنز کے باوجود ہم دہشت گردی کے مسئلے کا ایک مستقل حل نکالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کے سیاسی پہلو بھی ہیں اور انتظامی بھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر 2014 کا نیشنل ایکشن پلان آگے چل کر سیاسی ایکشن پلان میں کیوں تبدیل ہو گیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں اور ٹیچرز کی شہادتوں کے بعد اس عزم کا کیا بنا کہ ملک کو دہشت گردوں سے پاک کر کے دم لیں گے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پشاور میں سکول بچوں کے قتل عام کا ماسٹر مائنڈ احسان اللہ احسان ہماری قید سے فرار ہو جاتا ہے اور ہم خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ہمارے ریاستی بیانیے کی اصل خامی ہی یہ ہے کہ بھائی لوگوں کی جانب سے من پسند افراد کو اہم ترین پوزیشن پر بٹھا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صوبے کا احساس محرومی کم ہو جائیگا۔ جب آپ نااہل اور غیر نمائندہ لوگوں کو کوٹہ کی بنیاد پر لا کر بٹھائیں گے تو معاملات حل ہونے کے بجائے اور پیچیدہ ہو جائیں گے۔ آپ 2014 کے نیشنل ایکشن پلان کو ہی دیکھ لیں جو پشاور پبلک سکول پر حملے کے بعد پارلیمنٹ اور فوج نے مشترکہ طور پر ترتیب دیا تھا۔ ہر آپریشن کے وقت یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ پورے ملک سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا جائے گا اور آپریشن تمام تر سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو گا، لیکن افسوس کہ ہم یہ دونوں کام نہیں کر سکے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو اس کا سب سے زیادہ نقصان سیاسی جدوجہد کو ہی ہوتا ہے۔ اب اگر سیاسی عمل کے نام پر غیر نمائندہ لوگوں کو عوام کے منتخب نمائندے کے طور پر مسلط کیا جائے گا تو نہ تو ریاست کو عوامی تائید حاصل ہو گی اور نہ ہی مسئلے کا حل نکلے گا۔ بلوچستان کی موجودہ ابتر صورت حال کی ذمہ دار سیاسی قوتیں بھی ہیں اور غیر سیاسی فیصلے بھی۔ صوبہ کے سیاستدان یا حکمران اس حد تک تو پوری طرح ذمہ دار ہیں کہ پچھلی تین چار دہائیوں میں جو اربوں روپے بلوچستان پیکیج یا ترقیاتی فنڈز کے نام پر آئے وہ یا تو بیورو کریٹس کے گھروں سے برآمد ہوئے یا لاپتہ ہو گئے اور کوئی حساب لینے والا بھی نہیں ہے۔ دوسرا اہم ترین مسئلہ امن و امان کا ہے آج ہم جعفر ایکسپریس کے واقعہ تک پہنچے کیسے۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے اور اس میں جو بھی ملوث ہے اسکو سزا ملنی چاہئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پولیس، جس کو عملاً فرنٹ لائن فورس ہونا چاہئے، کی عمل داری ہی کوئٹہ سے آگے ختم ہو جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ ’’لیویز‘‘ کے موجودہ نظام کو ختم کر کے پولیس کا دائرہ پورے بلوچستان تک بڑھایا جائے۔

مظہر عباس کے مطابق تیسرا معاملہ لاپتہ افراد کا ہے، سوال یہ ہے کہ آخر لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کی سیاست کا بیانیہ کیسے بن گیا، اگر صرف حال میں ہونے والی ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی پریس کانفرنس کا ہی جائزہ لیں تو مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر 8 ہزار سے زائد لاپتا افراد کے کیسز بقول فوجی ترجمان واقعی حل ہو چکے ہوتے تو بلوچ یکجہتی کونسل سڑکوں پر کیوں ہوتی۔ دراصل معاملات اتنے بھی آسان نہیں جتنا کہ بتایا جا رہا ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بلوچستان کے عوام کو انکے جائز حقوق دیتے وقت اگر مگر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بلوچستان کو گیس کی مکمل رائلٹی نہیں ملتی۔ دراصل بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی تب دور ہو گا جب صوبے میں کوئی نمائندہ حکومت بنے گی۔

تحریک طالبان اور داعش کا کرپٹو کرنسی سے فنڈنگ اکٹھی کرنے کا آغاز

مظہر عباس کہتے ہیں کہ بات بلوچستان کی ہو یا کے پی کے کی، تمام مسائل کا حل آج بھی سیاسی ہے اور مفاہمتی سیاست سے ہی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے، کسی کو غدار یا محب وطن قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سیاسی عمل  اپنایا جاتا تو مشرقی پاکستان بھی ہم سے الگ نہ ہوتا مگر ہم نے سیاسی نہیں بلکہ فوجی حل نکالنے کی کوشش کی اور ملک تڑوا بیٹھے۔ آج طالبان ہمارے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ وہ بھی تو ہماری ہی پیداوار ہیں۔ ایم کیو ایم کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسکے بعد سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ٹی ایل پی کھڑی کر دی گئی۔ ہماری غلطیوں کی ایک طویل فہرست ہے مگر آگے بڑھنے کا راستہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ملتا ہے۔ دہشت گردی ایک ناسور ہے جو تیزی سے پھیلتے ہوئے پاکستانی معاشرے کیلئے کینسر بن چکا ہے۔ لہذا دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو دہشت گرد تنظیموں کو پالنے اور پوسنے کی پالیسی ختم کرنا ہو گی۔

Back to top button