ریٹائرڈ فوجی ایاز امیر اب فوج کو خرابی کی جڑ کیوں سمجھتے ہیں؟

عمران خان کے دور حکومت میں ہائبرڈ سسٹم کے تحت چلنے والی حکومت کی مسلسل حمایت کرنے والے ریٹائرڈ فوجی کیپٹن ایاز امیر نے کہا ہے کہ پاکستان جیسے بدنصیب معاشروں میں آئینی اور قانونی تقاضوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہاں طاقتور عسکری حلقے اپنی مرضی کرتے ہیں اور ماورائے آئین سلسلے چلتے رہتے ہیں۔ چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو بولنے کی ہمت رکھتے ہیں، نہیں تو اکثریت اسی میں عافیت سمجھتی ہے کہ حالات سے سمجھوتا کیا جائے اور وقت گزارا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں جہاں کہیں زبانیں کھلتی ہیں تو جبر وزیادتی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے لیے ہمدردیاں رکھنے والے کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں اور اسی وجہ سے خوش فہمی کے مارے یار دوست پوچھتے رہتے ہیں کہ کسی خوشخبری کی امید ہے۔ اس سے مراد اُن کی ملکی سیاست ہوتی ہے کہ کیا اس میں کسی بہتری کا امکان ہے۔ حقیقت البتہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں جب تک کوئی بڑا حادثہ رونما نہ ہو تو چیزیں ایسے ہی چلتی رہتی ہیں۔ لاکھ تنقید کے نشتر برسائے جائیں‘ تجزیے کیے جائیں‘ کچھ ہونے کا امکان پیدا نہیں ہوتا جب تک کوئی ناگہانی چیز نہ ہو جائے۔ ہماری تاریخ کا بھی یہی سبق ہے کہ جب بھی کوئی بڑا حادثہ پیش آتا ہے تو تبدیلی کے پہیے چلنے لگتے ہیں۔
اگست 1988ء میں طیارے کا حادثہ نہ ہوتا تو کیا جنرل ضیا الحق نے اس ملک کی جان چھوڑنی تھی؟ جرنیل موصوف جونیجو کی اسمبلی برخاست کر چکے تھے‘ یعنی انکا اپنا شروع کیا ہوا سیاسی تجربہ ناکام ہو چکا تھا لیکن وہ اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھے۔ آئینی تقاضا تھا کہ اسمبلی کی برخاستگی کے بعد نوے دن میں انتخاب کرائے جائیں۔ لیکن وہ نہ کرائے گئے اور جنرل صاحب کو کوئی پروا بھی نہیں تھی کہ آئین کیا کہتا ہے اور کیا نہیں۔ ویسے بھی اُن کی نظروں میں آئین کی وہ قدر ومنزلت تھی جو اُن کے اُس تبصرے سے ظاہر ہوتی ہے جو اُنہوں نے اپنے اقتدار کے شروع میں ادا کیا تھا کہ یہ تو ایک ڈاکیومنٹ ہے‘ جسے میں جب چاہوں پھاڑ کے رکھ دوں۔ تاہم آسمانوں کے دیوتا کو کچھ اور ہی منظور تھا لہذا ان کے طیارے کا حادثہ ہو گیا اور یوں یہ ممکن ہوا کہ الیکشن کرائے جائیں اور ایک منتخب حکومت اقتدار کی باگیں اپنے ہاتھوں میں لے۔
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ یہ اور بات ہے کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو رسیوں میں جکڑ کر اقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا۔ پیپلز پارٹی والے بھی بادشاہ لوگ تھے، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی تمام شرائط مان لیں۔ 1990ء میں نواز شریف وزیراعظم بنے لیکن یہ تبھی ممکن ہوا جب بینظیر بھٹو کی حکومت صدر غلام اسحاق اور جنرل اسلم بیگ نے مل کر ختم کی۔ یہ برخاستگی نہ ہوتی تو بینظیر بھٹو پانچ سال تک وزیراعظم رہتیں اور اس دوران قیاس کیا جا سکتا ہے کہ (ن) لیگ کی آدھی چربی پگھل گئی ہوتی۔ جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو جھٹکے سے آئے۔ 12اکتوبر 1999ء کو نواز شریف اُن کی چھٹی کرنے چلے تھے، لیکن حاکمیت کے کرشمات ایسے ہیں کہ شام سے پہلے خود نواز شریف کی چھٹی ہو گئی۔
پاکستان کو ڈھیلی ریاست بنانے کے ذمہ دار سیاستدان ہیں یا فوج ؟
اسکے بعد آٹھ سال تک مشرف سیاہ و سفید کے مالک رہے لیکن مارچ 2007ء میں اچانک اُن کے خلاف وکلا تحریک برپا ہو گئی۔ اس کے بارے میں بھی اب کہا جاتا ہے کہ پیچھے خفیہ ہاتھ تھے جو چاہتے تو وکلا تحریک کو کچل دیتے لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔ وکلا تحریک چلی اور عدالتی فیصلے جنرل مشرف کے خلاف گئے جس کے نتیجے میں اُن کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی گئی۔ بالاخر 2008 کے الیکشن کے بعد آصف زرداری نے صدارتی مواخذے کی دھمکی دے کر انکی چھٹی کروا دی، لیکن وہ جاتے جاتے یہ نہ سمجھ سکے کہ فوج میں اپنا جانشین کس کو مقرر کریں۔ نئے آرمی چیف کی دوڑ میں دو جرنیل شامل تھے لیکن مشرف نے فیصلہ اشفاق پرویز کیانی کے حق میں کیا جن کے بارے میں بعد میں وہ خود کہتے رہے کہ مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی۔
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ دیگر واقعات چھوڑیے‘ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دیے گئے، جنرل نیازی نے اپنا پستول جنرل اَروڑہ کے حوالے کر دیا لیکن اس عظیم سانحہ کے بعد بھی جنرل یحییٰ خان اور اُن کے قریب تر ساتھی جنرل حمید اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سکیورٹی کونسل میں دھواں دار تقریر کی اور پولینڈ کی قرارداد ڈرامائی انداز میں پھاڑ کر سکیورٹی کونسل سے واک آؤٹ کر گئے تھے۔ لیکن تب مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل چکا تھا اور بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان ہو چکا تھا۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ ان واقعات کے بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جیسے بدنصیب معاشروں میں آئینی اور قانونی تقاضوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ طاقتور فوجی حلقے اپنی مرضی کرتے ہیں اور جب تک حالات اجازت دیں‘ ماورائے آئین سلسلے چلتے رہتے ہیں ۔