صدر ٹرمپ جیل میں بند عمران کی رہائی کے لیے فون کیوں نہیں کرتے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے تین ماہ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے پاکستانی آرمی چیف یا صدر یا وزیراعظم کو عمران خان کی رہائی کے مطالبے پر مبنی فون نہیں کیا۔ مذید ظلم یہ ہے کہ جب بھی وائٹ ہاؤس کے ترجمان کو اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو جواب میں بتایا جاتا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ ٹرمپ کے سرد مہر رویے سے چراغ پا ہو کر پچھلے ہفتے بالآخر پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے ایک انگریزی روزنامے کے عمرانڈو مالک نے امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان کو ہفتہ وار بریفنگ میں کھری کھری سنانے کا فیصلہ کیا۔ موصوف نے وزارت خارجہ کی ترجمان کو یاد دلایا کہ لاکھوں پاکستانی نڑاد ووٹروں نے ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ ڈالا تھا جس کے بعد انہیں توقع تھی کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان کی جیل سے رہائی کے لئے پاکستانی فیصلہ سازوں پر دباؤ بڑھائیں گے۔

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ٹیمی نام کی ایک خاتون ہیں جو پہلے ریڈیو پروگرامز کی میزبان تھیں۔ انہیں گفتگو کے ہنر پر کامل عبور حاصل ہے۔ ٹیمی کی گفتگو ٹرمپ کے حامیوں کو اس لیے بھی بہت شاندار سنائی دیتی ہے کہ یہ خاتون کبھی ڈیموکریٹک پارٹی میں بہت متحرک رہی ہیں۔ ان کے سماجی رویے بھی انہیں ’’لبرل‘‘ پہچان دیتے ہیں۔ اس پہچان کے ہوتے ہوئے بھی جب وہ ٹرمپ کے مخالفین کے لتے لیتی ہیں تو رونق لگ جاتی ہے۔

چناچہ عمران کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے پاکستانی صحافی کو بھی ٹیمی نے کمال مہارت سے یہ پیغام دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی حامی نہیں ہے۔ ٹیمی نے درحقیقت پیغام یہ دیا کہ امریکہ کسی بھی دوسرے ملک کے اندرونی سیاسی معاملات کے کسی بھی پہلو میں مداخلت نہیں کرے گا۔ قصہ مختصر امریکی وزارت خارجہ نے پیغام یہ دیا کہ عمران خان جانیں اور حکومت پاکستان، امریکہ کا ان دونوں کے باہمی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اپنی منہ پھٹ پہچان برقرار رکھتے ہوئے موصوفہ نے پاکستانی صحافی کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر وہ ٹرمپ کو پاکستانی نژاد ووٹروں کا احسان جتا کر عمران خان کے بارے میں امریکی صدر کا رویہ جاننا چاہتا ہے تو وائٹ ہائوس سے رجوع کرکے صدارتی ترجمان سے گفتگو کرلے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم خود اذیتی کے مریض بن چکے ہیں۔ میرے اس خیال کو تقویت ان عاشقان عمران کے رویے سے ملتی ہے جو ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کی بے پناہ اکثریت وہاں کئی برسوں سے رہتے ہوئے بھی اس گماں میں مبتلا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں جمہوری نظام کا فروغ چاہتا ہے اور پاکستان میں عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ سے برداشت نہیں ہو گا۔ عاشقان عمران خان کا اب بھی یہ خیال ہے کہ اگر ان کے قائد کو جلد رہا نہ کیا گیا تو ٹرمپ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دے گا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران خان سے پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے خیال میں ٹرمپ کی خصوصی محبت اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ وہ پاکستان کے واحد وزیر اعظم ہیں جو اس کے اقتدار میں وائٹ ہائوس گئے تھے۔ وہاں امریکی صدر کی اہلیہ کے ساتھ سیلفی بھی بنوائی تھی۔ اس دوران ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کو وائٹ ہائوس کے اس حصے میں لے کر گیا تھا جو ذاتی استعمال یا گھریلو افراد کے لئے مختص شمار ہوتا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے دوران امریکہ کو پاکستان میں ’’جمہوریت‘‘ یاد نہ آئی تو اس ملک میں مقیم عاشقان عمران نے کمال یکسوئی سے پہلی بار اپنی اہمیت کا احساس دلوایا۔ وہ بطور کمیونٹی متحرک ہوئے اور امریکی ایوان نمائندگان سے ایک قرارداد منظور کروائی جس میں تحریک انصاف کے بانی کے انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ ہوا۔ لیکن افسوس کہ بائیڈن انتظامیہ نے اس قرارداد کو رعونت سے نظر انداز کر دیا۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی عمران کے حوالے سے بے اعتنائی سمجھی جا سکتی تھی کیونکہ اپریل 2022ء میں اقتدار سے فراغت کے بعد بانی تحریک انصاف پاکستان کے تقریباََ ہر بڑے شہر میں گئے۔ موصوف نے وہاں منعقد ہوئے بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے ایک سائفر کے حوالے سے واشنگٹن پر الزام لگایا کہ وہ ان کے دورہ روس کو برداشت نہیں کر پایا۔ خان نے بعد میں یہ چورن فروخت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ صدر پوٹن سے ان کی ملاقات کے بعد پاکستان میں ’’رجیم چینج‘‘ کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یعنی عمران خان کو ’’وطن پرست‘‘ ہونے کے ’’جرم‘‘ میں ایران کے ڈاکٹر مصدق اور چلی کے آلندے کی طرح ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ’’رجیم چینج‘‘ کی سازش کا شکار ہونے کے بعد عمران تواتر سے ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا سوال اٹھاتے رہے۔ چنسنچہ یہ سوال اٹھانے کے بعد ان کے حامیوں کو بائیڈن سے کسی مدد کی توقع نہ رہی۔ وہ شدت سے ٹرمپ کے منتخب ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ بے شمار پاکستانی نڑاد امریکی شہریوں نے صدارتی انتخاب کے دوران ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ بھی دئے۔

ملک دشمن پروپیگنڈہ : علیمہ خان بیرون ملک اکاؤنٹس چلاتے پکڑی گئیں

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ جب ٹرمپ منتخب ہوگئے تو بے تابی سے انتظار ہوتا رہا کہ وہ کب ٹیلی فون اٹھاکر پاکستان کے فوجی حلقوں کو متنبہ کریں گے کہ عمران ان کا یار ہے لہٰذا اسے فوری رہا کیا جائے۔ ظاہر ہے وہ صدر ٹرمپ کے دبائو کی بدولت رہا ہو جاتے تو پاکستان کے ہر شہر جاکر قبل از وقت انتخاب کی تحریک چلاتے۔ ایسے انتخابات کے نتیجے میں ان کی وزیر اعظم کے منصب پر کم از کم دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپسی یقینی تصور ہو رہی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا۔

Back to top button