گوادر کی بندرگاہ 15 برس بعد بھی تجارتی طور پر ناکام کیوں ہے

سال 2007 میں 250 ملین ڈالرز کی خطیر لاگت سے تعمیر ہونے والی گوادر کی بندرگاہ 15 برس بعد بھی سمندر کے ذریعے پاکستان کی تجارت کے ایک فیصد سے بھی کم کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ چین کی فنڈنگ سے تعمیر ہونے والا گوادر پورٹ بلوچستان میں بحیرہ عرب کے گرم پانیوں پر واقع ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کو 2013 سے چین کی اوور سیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی چلاتی ہے۔

تاہم گوادر شہر کے اندر اور اس کے ارد گرد انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر اضافی ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجو د پاکستان کی بحری امور کی وزارت کی مالی سال 2022۔2023 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ سمندر کے ذریعے پاکستان کی تجارت کے ایک فیصد سے بھی کم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان مسلسل گوادر کی بندرگاہ تک تجارتی سر گرمیوں کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی عدم تحفظ، بنیادی سروسز کا فقدان اور بندر گاہ کو خوشحال بنانے کے منصوبوں کی کمی جیسے مسائل تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کی راہ میں حائل ہیں۔

منصوبہ بندی و ترقیاتی امور کے وزیر احسن اقبال کی زیر صدارت ایک حالیہ میٹنگ کے بعد جاری ایک بیان سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی حکام کے پاس 2016 میں اس بندر گاہ کے ذریعے پہلے تجارتی بحری جہازوں کے گزرنے کے لگ بھگ دس سال بعد تجارت کو اس پورٹ تک لانے کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ سرکاری بیان کے مطابق احسن اقبال نے گوادر پورٹ کے لیے کمرشل تجزیے اور جامع آپریشنل پلان کے فقدان کی نشاندہی کی اور اس کی صلاحیتوں کے استعمال کے مواقع تلاش کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔ احسن اقبال نے چھ ماہ کے اندر تجارتی سرگرمیاں پیدا کرنے کا ایک منصوبہ تیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے گوادر میں بحری تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کی کوشش میں کابینہ کے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ پبلک سیکٹر کی 60 فیصد امپورٹس اور ایکسپورٹس کو اس بندر گاہ سے گزرنا چاہیے۔ اب سوال یہ یے کہ گوادر میں تجارتی سرگرمیوں میں کمی کیوں؟

وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کے حکومتی سسٹم میں دیر پامنصوبہ بندی کی عدم موجودگی کو گوادر بندر گاہ کی ناکامی کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ اسکے مطابق گوادر شروع ہی سے خالصتاً ایک کمرشل منصوبےکی بجائے ایک جیو پولیٹیکل منصوبہ تھا۔ گوادر بندر گاہ کی تجارتی سرگرمیوں میں کمی پر سابق وزیر اعظم خاقان عباسی نے کہا کہ وہاں بڑے پیمانے کے مال بردار جہازوں کو ہینڈل کرنے کے لیے انفراسٹرکچر اور افرادی قوت کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک آپ وہاں تین سے چار ارب ڈالر تک خرچ نہیں کریں گے اور اسے ایک ورلڈ کلاس پورٹ نہیں بنائیں گے، اسے ایک حقیقی بندر گاہ نہیں کہا جا سکتا۔

ٹرمپ وائٹ ہاؤس سنبھالنے والے پہلے سزا یافتہ صدر کیسے بنے؟

رپورٹس کے مطابق گوادر پورٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی 2045 تک بحری جہازوں کی لنگر اندازی کے لیے کل 100 عرشے تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ گوادر ائیر پورٹ پر تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے وہاں رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا ائیرپورٹ بنایا گیا تھا لیکن اسے بھی ابھی زیادہ تر استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایوی ایشن ویب سائٹ اسکائی اسکینر میں اس بڑے ائیر پورٹ سے ہفتے میں تین پروازیں کراچی اور ایک بین الاقوامی پرواز عمان کے لئے دکھائی گئی ہے۔ چین کی 230 ملین ڈالر کی گرانٹ سے تعمیر شدہ نئے گوادر انٹر نیشنل ائیر پورٹ کا افتتاح گزشتہ ماہ ہونا تھا لیکن اسے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے موخر کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ بلوچستان جہاں گوادر واقع ہے، دو عشروں سے علیحدگی پسندوں کی شورش کی لپیٹ میں ہے اور حالیہ مہینوں میں وہاں تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے۔

Back to top button