یوتھیوں نے دوبارہ سپریم کورٹ سے امیدیں کیوں وابستہ کر لیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے سویلینز کے ٹرائل کے اختیار کو طے کرنے کے لیے جاری کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز سرکاری وکیل خواجہ حارث کو جو رگڑا دے رہے ہیں اس سے تحریک انصاف والوں کو انصاف ملنے کی امیدیں دوبارہ سے زندہ ہو گئی ہیں

اپنی تازہ تحریر میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تقریباََ 15سال قبل نام نہاد عدلیہ بحالی تحریک کی بدولت افتخار چودھری چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوئے تو خود کو دورِ حاضر کا مسیحا ثابت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ازخود نوٹسوں کی بھرمار سے اس شخص نے منتخب ایوانوں میں بیٹھے افراد کی اکثریت کو ’’چوراور لٹیرے‘‘ ہی نہیں بلکہ جعلی ڈگریوں والے بھی ثابت کیا۔ صحافیوں کی دوکان مگر اس کی جگاشاہی سے چمک اٹھی۔ مجھ جیسے لوگ فریاد کرتے رہے کہ خود کو مسیحا ثابت کرنے کے جنون میں سپریم کورٹ میں کوٹہ سسٹم کی بدولت گھسنے والا یہ چئف جج درحقیقت پورے جمہوری نظام کی ساکھ تباہ کررہا ہے۔ دْکھ کی بات یہ ہے کہ میرے تمام اندیشے درست ثابت ہوئے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ہمارے سیاسی منظر پر اکتوبر 2011 میں عمران خان کی بنائی ہوئی تحریک انصاف کی احیائے نو بھی ہو گئی۔ خود کو ’’نئی نسل‘‘ کی نمائندہ ٹھہراتی اس جماعت نے سوشل میڈیا کی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے ان صحافیوں کو ’’لفافہ‘‘ قرار دیا جو مذکورہ جماعت سے متفق نہیں تھے۔ صحافی کے لئے اپنی ساکھ اور مقبولیت بچانے کے لئے لازمی ہو گیا کہ وہ ہر وقت عمران کو ملک کا یک و تنہا ایماندار سیاستدان ثابت کرے۔ ’’باریاں لینے والے‘‘ سیاست دانوں کے خلاف ابھرے اس ’’تھرڈ آپشن‘‘ کو ہمارے فوجی بھائیوں نے بھی کھل کر سپورٹ کیا۔ افتخار چودھری کی سپریم کورٹ سے رخصتی کے بعد چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے والے ثاقب نثار نے بھی اس’’تیسری آپشن‘‘ کو ’’صادق و امین‘‘  کا لقب دے دیا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بعد نواز شریف بھی پارلیمانی نظام کے قواعد وضوابط یا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نہیں بلکہ براہِ راست سپریم کورٹ کے ہاتھوں سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل ٹھہرائے گئے۔ میڈیا والوں کی بے پناہ اکثریت نے وزرائے اعظموں کو گھریلو ملازموں کی طرح فارغ کرنے کی اس مہم میں مسیحا کا کشادہ اوڑھے سیاہ پوش ججوں کا کھل کر ساتھ دیا۔ اس دوران قوم کو اس مغالطے میں رکھا گیا کہ عدلیہ اور صحافی مل کر ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے بعد عمران خان جیسے صادق و امین  کی قیادت میں ترقی وخوشحالی کی راہ پر ڈال دیں گے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا گیا۔ ان کی جگہ برسراقتدار آنے والی حکومت نے فوری انتخاب کی راہ اختیار کرنے کے بجائے ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے نام پر اقتدار کو طول دینے کا فیصلہ کیا۔ آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل شروع کیا تو مہنگائی کے سیلاب نے لوگوں کی چیخیں نکلوادیں۔

سینئر صحافی کہتے ہیں کہ دودری جانب اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر جاکر ریاست کے طاقت ور اداروں میں موجود ’’میر جعفروں‘‘ کو للکارنا شروع ہوگئے۔ موصوف نے پاکستانیوں کی موثر تعداد کو اس امر پر قائل کر دیا کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے موصوف کو روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کی خواہش سے ناراض ہوکر اقتدار سے فارغ کروایا ہے۔ ’’میر جعفر‘‘ کا لقب پانے کے باوجود قمر باجوہ ان دنوں کے صدر علوی کی وساطت سے عمران خان سے درپردہ ملتے رہے۔ ریاست کے طاقتور ترین ادارے کی سربراہی سے دست بردار ہونے کو باجوے کا لالچی ذہن تیار نہیں تھا حالانکہ وہ اپنے عہدے کی معیاد ملازمت میں پہلے ہی تین سال اضافے کا فائدہ اٹھاچکے تھے اور اب مزید اضافے کی گنجائش نہیں تھی۔

قمر جاوید باجوہ کی جاہ طلب ہوس نے جو خلاء پیدا کیا اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عدلیہ میں موجود عمران کے ’’ہم خیال‘‘ متحرک ہوگئے۔ ہم صحافیوں کی دوکان دوبارہ چمک اٹھی۔ روایتی میڈیا سے زیادہ ججوں کی ’’آئین پسندی‘‘ نے سوشل میڈیا پر وابستہ ہمارے ساتھیوں کو حق وصداقت کی علامتیں بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن جب ججز اپنی حد سے آگے نکل گئے تو ’’لاٹھی‘‘ بالآخر حرکت میں آئی۔ آئین میں 26ویں ترمیم ہو گئی۔ سپریم کورٹ کو مذکورہ ترمیم کی بدولت نظر بظاہر دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ’’آئینی معاملات‘‘ پر غور کرنے کے لئے الگ سے مختص بنچ تشکیل پایا۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے روایتی اور سوشل میڈیا پر جو رونق لگاکرتی تھی بتدریج ماند پڑنا شروع ہو گئی۔

گوادر کی بندرگاہ 15 برس بعد بھی تجارتی طور پر ناکام کیوں ہے

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ربّ کریم تو پتھر میں بند ہوئے کیڑے کو بھی رزق فراہم کرتا ہے۔ اس کا لاکھ لاکھ شکر کہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے ان درخواستوں کی سماعت شروع کردی ہے جو عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف دائر ہوئی تھیں۔ شہریوں کے فوجی عدالتوں سے ٹرائل کا ذکر ہو تو ہمارے ذہن میں نو مئی 2023 کے واقعات کے سوا کچھ اور آتا نہیں۔ اس دن عمران خان کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر سننے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں مبینہ طورپر تحریک انصاف کے حامی فوجی تنصیبات میں در آئے تھے۔ وہاں توڑ پھوڑ کے علاوہ اشتعال انگیز نعروں کا الزام بھی ہے۔  عمران خان اور ان کے حامی مصر ہیں کہ ان کی جماعت کے لوگ ان واقعات کے ذمہ دار نہیں تھے۔ انکے مطابق 9 مئی کے واقعات درحقیقت ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھے جن کا مقصد تحریک انصاف کو بدنام ہی نہیں بلکہ اس کے متحرک کارکنوں کو ’’بے بنیاد الزامات‘‘ کے تحت گرفتار کرنے کے بعد مفلوج بھی کرنا تھا۔ 85 لوگوں کو 9 مئی کے واقعات کی میں سزا سنادی گئی ہے۔ ان میں سے 19 کو حال ہی میں ’’رحم‘‘ کی بنیاد پر رہا کردیا گیا۔ بقیہ لوگوں کی قسمت اسی مقدمہ کے فیصلے کے بعد ہی واضح ہوگی جو ان دنوں سپریم کورٹ کا آئینی بنچ سن رہا ہے۔

لیکن فیصلہ جوبھی ہو، سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں شہریوں کی فوجی عدالتوں سے سزاوں کے خلاف اپیل نے ایک بار پھر روایتی اور سوشل میڈیا کا سپریم کورٹ کے حوالے سے ’’سیزن‘‘لگادیا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ بنچ کے کم از کم تین معزز جج صاحبان سخت سوالات کے ذریعے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو زچ کر رہے ہیں۔ یہ سب ہوتا دیکھ کر تحریک انصاف والوں کو ایک بار پھر عدلیہ سے ’’انصاف‘‘ ملنے کی امید لگ گئی ہے۔ یہ امید ٹرمپ کی وائٹ ہائوس واپسی کے بعد مزید تقویت حاصل کرسکتی ہے۔ بالآخر جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ ذاتی طورپر میں اس لئے خوش ہوں کہ سپریم کورٹ کے حوالے سے ہم صحافیوں کی دوکان ایک بار پھر رونق لینا شروع ہوگئی ہے۔

Back to top button