عمران خان کا انجام ذوالفقار علی بھٹو سے مختلف کیوں نہیں ہو گا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حفیظ اللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ اقتدار سے بیدخل ہونے والے عمران خان کا انجام بھی تین سابق وزرائے اعظم یعنی ذوالفقار علی بھٹو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے مختلف نہیں ہو گا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ  اڈیالہ جیل میں بند عمران خان آج اپنے کئے کا بھر رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر 2022ء کو تب کے آئی ایس آئی چیف جنرل ندیم انجم نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران دو فقروں میں اگلی دو دہائیوں کا نقشہ کھینچا تھا اور معاملات اسی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ جنوری 2021 میں عسکری قیادت نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا اور بتایا تھا کہ یہ فیصلہ اگلے 18 سال تک نافذ العمل رہے گا۔ سلیس زبان میں، فوجی قیادت نے جنوری 2021 میں ہی عمران سے جان چھڑوانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا رہنما اصول ایک ہی رہا ہے اور وہ یہ کہ ’حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ ایک ادارہ جاتی فیصلہ ہوتا ہے جو ارمی چیف کے بدل جانے کے بعد بھی نہیں بدلتا۔ 2014 میں جنرل راحیل شریف کی زیر قیادت فوج نے ’’سیاست نہیں بلکہ ریاست بچاؤ‘‘ کے نام پر نواز شریف کی فراغت کا عمل شروع کیا تھا جو نئے ارمی چیف کے آنے کے بعد مکمل ہوا۔

حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ اگرچہ نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی تعیناتی وزیر اعظم نواز شریف اپنے دست مبارک سے کی، لیکن نئے چیف نے معاملہ وہیں سے آگے بڑھایا جہاں جنرل راحیل چھوڑ کر گے تھے۔ چنانچہ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔

حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ ماضی میں وزیر اعظموں کی اکھاڑ پچھاڑ کے تین ماڈل قابل توجہ ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے والے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کو 4 سال کے لیے اقتدار ضرور ملا، لیکن 15 اگست 1975 کو دوج نے انہیں مع اہل و عیال بھیانک انجام کو پہنچا کر ہی دم لیا۔ عوامی لیگ 20 سال بعد اقتدار میں آئی تو بھی پنجے نہ گاڑ سکی۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ بالآخر مجیب کی وراثت بھی قصہ پارینہ بن چکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں پھانسی دینے کے بعد بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کو 12سال بعد 1988 میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے بعد مخلوط و مشروط اقتدار ملا۔ لیکن ان کی حکومت صرف 18 ماہ بعد ہی ختم کر دی گئی۔ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ بھی وزیراعظم بن کر اقتدار میں آئیں لیکن انکی دوسری حکومت کو بھی وقت سے پہلے گھر بھیج دیا گیا۔ آج پیپلز پارٹی تیسری بار بطور خاموش اتحادی اقتدار میں ہے مگر بھٹو مرحوام کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ فلسفہ سے یکسر محروم ہے۔

حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ دو مرتبہ بے نظیر کی حکومت ختم کر کے نواز شریف کو اقتدار میں لایا گیا لیکن پھر ان کا بھی فوجی قیادت کے ساتھ پنگا پڑ گیا۔ 1999 میں تب کے وزیراعظم نواز شریف کو ہتک آمیز طریقے سے گرفتار کیا گیا، پھر دربدر رکھا، پھر انکی ملک واپسی ہوئی اور 14سال بعد اقتدار بھی ملا گیا، لیکن اس دوران فوج نے پراجیکٹ عمران خان پر عمل درامد کا فیصلہ کر لیا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں ’’ریاست بچانے‘‘ کے نام پر اسٹیبلشمنٹ نے جو گیم پلان تیار کیا تھا اس پر عمل درآمد جنرل قمر جاوید باجوا کے دور میں ہوا۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل کروانے کے بعد طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے عمران خان کو وزیراعظم بنوا دیا۔

عمران خان کو سزا کے بعد مذاکرات کا کھیل ختم ہونے کا امکان

حفیظ اللہ خان نیازی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں سول ملٹری کامیابی کا ماڈل ایک ہی رہا ہے۔ وہ ماڈل ہے نگران حکومتیں۔انکا کہنا ہے کہ ایسے میں پچھلے تین وزرائے اعظم کے انجام سے عمران خان کا انجام کیونکر مختلف ہو گا؟ شیخ مجیب کیخلاف اگرتلہ سازش کیس بنایا گیا جبکہ بھٹو پر نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل کیس ڈالا گیا، لیکن ان دونوں کا اصل جرم اسٹیبلشمنٹ کی بے توقیری کرنا تھا، نواز شریف فوج کے ادارے کو کمزور سمجھنے پر اپنے انجام کو پہنچے۔ ایسے میں اگر عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف دن دہاڑے مہم چلائیں، تو کیسے اور کیونکر بچ پائیں گے۔ انکا کہنا یے کہ آج عمران کی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ کی بدنیتی اور نالائقی کی مرہون منت ہی تو ہے۔ یہ فوج کی کمزور حکمت عملی ہے کہ عمران خان کو سیاسی مضبوطی و مقبولیت دی گئی۔ لیکن یہ سوچ کر دل دہل جاتا ہے کہ عمران خان کیخلاف فوج نے ابھی تک اصل کھیل تو شروع ہی نہیں کیا۔

Back to top button