عمران خان خود اپنی اور PTI کی سیاسی قبر کیوں کھود رہے ہیں؟

اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے عمران خان کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کو اس حال تک پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے بیرون ملک مقیم یوتھیوں کا ہے کیونکہ جیسے ہی تحریک انصاف کیلئے ریلیف کے حوالے سے کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے عمران خان یا اوورسیز یوتھیے کوئی ایسی کھچ مار دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے امید کی کرن گھپ اندھیرے میں بدل جاتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کا مسئلہ یہ ہےکہ انہیں ہر بات وقت گزرنے کے بعد سمجھ میں آتی ہے۔ انکی شخصیت کا یہ پہلو ہمیشہ سے ایک سوالیہ نشان بنا رہا ہے کہ وہ اپنی ناک سے آگے کبھی کچھ نہیں دیکھتے۔ انکے خیرخواہ کہتے کہتے تھک گئے کہ’’ خان جی! جان دیو، گل مذاکرات ول آن دیو‘‘۔ لیکن خان اپنی ضد پر اڑا رہا۔ خود بھی جیل گیا اور اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی زندان میں ڈلوا دیا۔ جو باہر ہیں، آئے روز درجنوں مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اور اب جب خدا خدا کر کے مذاکراتی عمل شروع ہوا توعمران خان روز نت نئی شرائط سامنے لانا شروع ہو چکے ہیں جس کا لامحالہ نتیجہ مذاکرات کی معطلی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ جس سے پی ٹی آئی کی وینٹی لیٹر پر موجود سیاست دم توڑ جائے گی۔

مبصرین کے مطابق یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست سے ملک و قوم یا پی ٹی آئی والوں کو کیا ملا؟ کیونکہ عمران خان کی اس طرز سیاست نے قوم کا وقت برباد کیا، ملکی معیشت کو اربوں ، کھربوں کا نقصان پہنچا کر دیوالیہ ہونے کے دہانے تک پہنچا دیا تاہم پھر بھی انھیں سکون نہیں ملا۔ احتجاجی مارچوں، دھرنوں کے باعث عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کررہ گئی کہ ہم تباہی و بربادی کی ایسی کھائی میں گر گئے ، جہاں سے نکلنا محال ہوچکا ہے۔مبصرین کے بقول عمران خان نے ملکی و بین الاقوامی حالات کا ٹھیک سے تجزیہ کیا نہ ہی خطے میں تیزی سے رونما ہونیوالی تبدیلیوں کے دوررس منفی اثرات بارے کبھی سوچا۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ مجمع گیری کوئی کمال نہیں۔ یہاں تو سانپ نیولے کی لڑائی دکھانے والے مداری بھی کسی چوک چوراہے پر درجنوں لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔ لکڑی کی ایک کھونٹی پر بکری کو چاروں ٹانگوں پرکھڑا کرنیوالے ماہر شعبدہ باز ہوں یا جانور کی چربی پگھلا کر مردانہ طاقت بڑھانے والے تیل کے نام پر لوگوں سے پیسے بٹورنے والے بازی گر اور ہاتھ کی صفائی سے کرتب دکھانے والے بھی مجمع اکٹھا کر لیتے ہیں اس لئے عمران خان کو سعبدہ بازوں کی طرح مجمع اکٹھا کرنے پر اترانے کی بجائے سمجھ بوجھ سے سیاسی فیصلے کرنے چاہیں تاکہ اپنی بچی کھچی سیاست کو بچا سکیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مزاحمت کی سیاست سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اداروں اور ریاست سے ٹکراؤ پر ہرگز اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عمران خان مزاحمتی سیاست کے نام پر ریاست سے ٹکراو کی باتی  کرتے ہیں جس کی نہ تو آئین میں گنجائس ہے اور نہ ہی اس مقتدر قوتیں ایسی باغیانہ روش کو قبول کرینگی جس کا حتمی نتیجہ قطعا پی ٹی آئی کے حق میں نہیں نکلے گا۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ بات منوانے کے بھی کوئی ڈھنگ ہوتے ہیں۔ سیاست میں اتنی گنجائش تو رکھی جانی چاہیے کہ بات بگڑنے پر کوئی دوسرا اسے سنبھال سکے۔ تاہم پی ٹی ائی کے معاملھ میں عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی نے تو کسی کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا کہ حالات نے اب پی ٹی آئی کو اس ڈگر پر لا کھڑا کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ہرکارے کبھی بڑے مولانا صاحب کی طرف دوڑتے ہیں تو کبھی محمود خان اچکزئی کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔آخر بات (ن) لیگ کے سپیکر قومی اسمبلی کے دروازے تک جا پہنچی ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

مبصرین کے مطابق عمران خان کی یو ٹرن پالیسیوں کی وجہ سے کوئی بات بھی یقینی طورپر نہیں کہی جاسکتی کہ عمران خان کب کس وقت یوٹرن لے کر مذاکرات کے دروازے بند کر دیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ابھی تک عمران خان کے نشانے پر ہے۔ اور وہ تاحال حکومت و اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے نطر آتے ہیں۔جس کے بعد مذاکرات کا پایہ تکمیل تک پہنچنا ایک۔خواب دکھائی دیتا ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان ایک طرف مذاکرات تو دوسری طرف سول نافرمانی کی دھمکیاں دے رہے ہیں،  کیا پی ٹی آئی کے حکومت سے مذاکرات ہورہے ہیں یا ہم’’ہائی جیکنگ‘‘کا کوئی سین دیکھ رہے ہیں کہ جیسے کوئی ہائی جیکر ”یرغمالیوں“ کے عوض گن پوائنٹ پر اپنے مطالبات کی منظوری چاہتا ہو۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ ایسی دھمکیوں سے پی ٹی آئی کے لئے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔ عمران خان کو پی ٹی آئی ہی سیاست کو زندہ رکھنے کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے اپنے معاملات عدلیہ اور حالات پر چھوڑ کر غیر مشروط طور پر آگے بڑھنا چاہیے اور اپنے سوشل میڈیا ونگز کو فوری لگام ڈال کر اداروں کے خلاف زہر افشانی سے باز آنے کی واضح ہدایات جاری کرنی چاہیں۔ بانی پی ٹی آئی اگر خلوص نیت سے چاہیں تو بند راہیں کھل سکتی ہیں۔ تاہم اگر عمران خان نے اپنا جارحانہ طرز عمل برقرار رکھا تو کسی کیلئے بھی پی ٹی آئی کی سیاسی تدفین کو روکناممکن نہیں۔ تاہم عمران خان کے حالیہ بیانات اور دھمکیوں سے لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنے ہی ہاتھوں سے تحریک انصاف کی سیاسی تدفین کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

Back to top button