عمران اب چوروں اور ڈاکوؤں سے مذاکرات کیلئے ترلے کیوں کر رہے ہیں؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف آج جس گرداب میں غوطے کھاتے ہوئے حکومت کے ساتھ ’’مذاکراتی تنکے‘‘ کا سہارا ڈھونڈ رہی ہے، اُس میں بنیادی کردار عمران خان کی ’’خُود سری‘‘ کا ہے۔ ان کے لیے بڑی اُلجھن یہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کو کیسے منہ لگائیں جنہیں وہ روز اوّل سے چور، ڈاکو، لٹیرے اور ملک دشمن قرار دیتے رہے ہیں؟
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان کی 28 سالہ سیاسی زندگی، مذاکرات، مفاہمت اور مصلحت جیسے ’’غیرانقلابی‘‘ عوامل سے کُلّی طورپر عاری رہی ہے۔ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، وہ اپنے سیاسی حریفوں سے ہاتھ ملانا، بات کرنا بلکہ اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی اپنی سیاسی غیرت وحمّیت کے منافی خیال کرتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست اِس نکتے سے شروع ہر کر اِسی نکتے پر ختم ہوجاتی ہے کہ ’’میرے مخالفین چور اور ڈاکو ہیں، میں اُن کے ساتھ کیسے ہاتھ ملا سکتا، کیسے مذاکرات کرسکتا ہوں؟‘‘ اُن کا یہی بیانیہ اُن کے فدائین کے دِلوں کو گرماتا اور ریاستی اداروں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتا ہے۔
عمران خان جانتے ہیں کہ اگر میں ’’چوروں اور ڈاکوئوں‘ کے ساتھ بیٹھ گیا، اُن سے مذاکرات اور معاملات کرنے لگا، تو اپنے پیروکاروں کو کیا منہ دکھائوں گا؟ 28 برس کی جہدِ مسلسل سے نفرتوں کا جو اَلائو بھڑکایا ہے، اگر اُس پر مذاکرات، مفاہمت اور مصلحت کیشی کی برکھا برسنے لگی تو اپنے فدائین کے دل ودماغ میں بونے کیلئے انگارے کہاں سے چُنوں گا؟‘‘یہی وجہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی کے بعض سینئر راہنمائوں کی کوششوں کے باوجود، آج تک مذاکرات کی کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ رکاوٹ صرف خان صاحب کا یہ فلسفۂِ سیاست ہے کہ ’’گھاس تو گھوڑے کا رزق، راتب، چارہ اور زندگی ہے۔ وہ گھوڑے سے دوستی کرلے تو کھائے کیا؟
عرفان صدیقی کے بقول اپریل 2022 میں، ہماری قومی تاریخ میں پہلی بار، وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے لگی تو پہلے قاسم سوری اور پھر عارف علوی کو استعمال کیا۔ سپریم کورٹ نے دونوں اقدامات کو غیرآئینی قرار دیدیا۔ شہبازشریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو صرف دو ارکان کی اکثریت سے قائم ہونے والی حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے کے بجائے اجتماعی استعفے دے کر گھر چلے گئے۔ اِن بے حکمتیوں سے کہیں بڑا المیہ صرف ایک ماہ بعد، مئی 2022 میں اُس وقت پیش آیا جب وزیراعظم شہبازشریف نے مستعفی ہوکر، اسمبلی تحلیل کر دینے اور نئے انتخابات کی طرف جانے کا فیصلہ کرلیا۔ 20 مئی 2022 کی تاریخ طے ہو گئی۔ شہباز شریف کی تقریر تیار ہوگئی۔ لندن سے نوازشریف نے جزوی ترامیم کیساتھ اُسکی منظوری بھی دیدی۔ قطر میں آئی۔ایم۔ایف سے مذاکرات کے باعث اِس تاریخ کو دَس دِن آگے کر دیا گیا۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ جنرل قمر باجوہ کو اس کی باضابطہ اطلاع کردی گئی۔ فوجی قیادت نے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور اسدعمر کے ذریعے عمران خان کو اس انتہائی مثبت پیش رفت سے آگاہ کردیا جو اُن دنوں پشاور میں بیٹھے ایک نئے لانگ مارچ کے لئے ڈنڈ پیل رہے تھے۔ پی۔ٹی۔آئی رہنما اسے بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے۔ اُن کی رائے تھی کہ اب لانگ مارچ کی ضرورت نہیں رہی۔ عمران خان نہ مانے۔ 22 مئی کی سہ پہر پریس کانفرنس کا پنڈال سجا لیا۔ جنرل باجوہ کے حکم پر ڈی۔جی۔آئی۔ایس۔آئی جنرل ندیم انجم نے شاہ محمود قریشی کو فون ملایا اور کہا__ ’’خان صاحب سے کہیں کہ وہ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔ بے شک کہہ دیں کہ مجھے ایک ہفتے کے اندر اندر وزیراعظم کے استعفے، اسمبلی کی تحلیل اور نئے انتخابات کی ضمانت دیدی گئی ہے۔‘‘ قریشی صاحب نے فون خان صاحب کو تھماتے ہوئے سرگوشی کی لیکن خان صاحب نے فون سننے سے انکار کرتے ہوئے 25 مئی کو اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کردیا۔
لیکن جب لانگ مارچ نامراد ٹھہرا تو موصوف یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ ’’چھ دن بعد پھر آئوں گا۔‘‘ اس اعلان کی منطق یہ تھی کہ اس دوران حکومت مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دے گی جسے میں اپنی فتح مبین سے تعبیر کرتے ہوئے انقلاب کا بیانیہ تراشوں گا۔ اُدھر لندن میں بیٹھے نوازشریف نے عمران خان کا اعلانِ لشکر کشی سنا تو وزیراعظم کو فون ملاتے ہوئے کہا__ ’’شہباز! اَب دھونس اور دھمکی میں آنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لو۔ ڈٹ کر میعادِ حکومت مکمل کرو۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ ‘‘اقتدار سے محرومی کے صرف دو ماہ بعد، طشتری میں سجا کر پیش کئے جانے والے انتخابات کی پیشکش خودسری کے آتشدان میں جھونک دی گئی۔‘‘ ایک سال بعد مئی 2023 میں ایک اور دروازہ کھلا۔ عطا بندیال، اعجازالاحسن اور منیب اختر پر مشتمل معروف ’’انصافی تکون‘‘ نے پہلے تو یہ فرمان جاری کیا کہ کچھ بھی ہوجائے، پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو منعقد کرائے جائیں۔ پھر اسی مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھ کر اگلے عام انتخابات کی تاریخ طے کریں۔ حکومت نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں، یوسف رضا گیلانی، نوید قمر، خواجہ سعد رفیق، اعظم نذیرتارڑ اور کشور زہرا پر مشتمل ایک معتبر کمیٹی قائم کردی۔ پی۔ٹی۔آئی نے شاہ محمود قریشی،فواد چوہدری، علی ظفر اور اسدقیصر پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ مذاکرات شروع ہوگئے۔ تین ادوار، پارلیمنٹ ہائوس میں ہوئے اور بنیادی معاملات طے پاگئے۔ فریقین نے اِس کا اعلان بھی کیا۔ طے پا گیا کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دِن ہونگے۔ ایک ساتھ نگران حکومتیں قائم ہوجائیں گی۔ ستمبر کے اواخر میں انتخابات منعقد ہوجائیں گے۔ یہ بھی طے پا گیا کہ حتمی اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں ہوگا جہاں باضابطہ مفاہمتی فارمولے کا اعلان کیاجائے گا۔
حکومت عمران کے دوغلے پن کی وجہ سے مذاکرات سے انکاری
لیکن بقول عرفان صدیقی جس دِن یہ اجلاس ہونا تھا، اُسی رات پی۔ٹی۔آئی ٹیم نے اطلاع دی کہ ’’ہم شرمندہ ہیں۔ خان نہیں مان رہا۔ وہ کہتا ہے پنجاب کے انتخابات ہر حال میں 14مئی ہی کو ہوں۔‘‘ یوں ایک بار پھر افہام وتفہیم کی مشق، مشقِ رائیگاں ٹھہری۔ اس وقت تو پی۔ٹی۔آئی کا نہ کوئی نظم ہے نہ ڈھانچہ، نہ فیصلہ سازی کا کوئی فورم نہ راہ و منزل کا تعین۔ درجنوں منہ ہیں اور بیسیوں زبانیں۔ رنگا رنگ نعرے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں۔ لہٰذا بہتر ہوکہ سات رُکنی مذاکراتی کمیٹی پہلے بانی پی۔ٹی۔آئی کے ساتھ نشستوں کا آغاز کرے۔ وہ قائل ہو جائیں تو پھر دوسری جماعتوں کا رُخ کریں۔ لیکن اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ عمران خان اُس دِن قائل ہو کر اگلے دِن بھی قائل رہیں گے اور یو ٹرن نہیں لے لیں گے؟