عمران کا سوشل میڈیا امریکیوں کی جنرل عاصم سے ملاقات پر گرم کیوں؟

تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رُکن جیک برگمین کی زیر قیادت ایک امریکی وفد کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات اور سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھلی دھوکہ دہی قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ جیگ برگمین ماضی میں پاکستانی حکومت سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ عمران کے حامی سوشل میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے دوہری پالیسی اپنا رکھی ہے، اسی لیے ایک جانب امریکی کانگرس میں جنرل عاصم منیر پر پابندیاں لگانے کا بل پیش کیا جاتا ہے تو دوسری جانب حکمران کانگرس مین اسی آرمی چیف سے اسلام اباد جا کر ملاقاتیں کرتے ہیں۔
یاد ریے کہ اپریل میں اب تک دو امریکی وفود اسلام آباد کا دورہ کر چکے ہیں۔ پہلا دورہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور مرکزی ایشیا کے امور کے سینیئر اہلکار ایرک مائر کا تھا۔ اس دورے پر آنے والے وفد نے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے بعد جیک برگمین کی سربراہی میں ’علاقائی سالمیت، دفاعی تعاون اور انسداد دہشتگردی‘ کا ایجنڈا لیے امریکی کانگریس کے تین رکنی وفد نے پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق تین رکنی امریکی وفد نے آرمی چیف سے ملاقات میں ’باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وفد میں امریکی کانگریس کے دو ارکان، تھامس سوزی اور جوناتھن جیکسن، بھی شامل تھے۔ اگرچہ امریکی وفد کی آرمی چیف سے ملاقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، تاہم آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملاقات میں پاکستان اور امریکہ نے ’علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون پر زور دیا۔‘ فوجی ترجمان کے اعلامیہ میں عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کسی مطالبے کا ذکر نہیں ہے۔
پاکستانی فوجی ترجمان کے مطابق دونوں فریقین نے ’باہمی احترام، مشترکہ اقدار اور سٹریٹجک مفادات پر مبنی پائیدار روابط کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ دورے پر آئے ہوئے امریکی قانون سازوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کے کلیدی کردار کو سراہا اور علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کے پائیدار کردار کا اعتراف کیا۔‘ آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل عاصم منیر نے امریکی وفد کے دورے کی تعریف کی اور اس خواہش کا اعادہ کیا کہ ’پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری کو مزید گہرا اور متنوع بنانا چاہتا ہے جو ایک دوسرے کے قومی مفادات کے لیے باہمی احترام اور باہمی مفاد پر مبنی ہو۔‘
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے مطابق اس دورے کا مقصد ’پاکستان میں امریکی کاروبار کے مواقع بڑھانا، دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات کو گہرا کرنا اور انسداد دہشتگردی میں جاری تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔‘
امریکی سفارت خانے کے اعلامیے میں بھی عمران خان کا کوئی ذکر نہیں۔ جہاں پاکستان میں حکومتی حلقے امریکی وفود کی آمد کو ’مثبت‘ قرار دے رہے ہیں وہیں عمران کے حمایتی سوشل میڈیا صارفین، خصوصا پارٹی کا سوشل میڈیا بریگیڈ امریکی وفود کی پاکستان آمد پر سخت تنقید کر رہا ہے۔تحریک انصاف کی حامی صارف صائمہ بابری نے ایکس پر جیک برگمین اور تھامس سوزی کو ٹیگ کر کے لکھا کہ ’اگر آپ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کر رہے ہیں تو ان کی قیادت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی اٹھائیں’۔ تاہم موصوفہ نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی کون سی خلاف ورزی ہوئی ہے؟
صائمہ بابری کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے سینیئر صحافی و تجزیہ کار مزمل سہروردی نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’پی ٹی آئی کی تمام لابنگ ناکام ہو گئی۔۔۔ سارے ڈالرز ضائع ہو گئے۔‘ امریکی کانگریس کے ان ارکان پر پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس کی جانب سے کڑی تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں ان ارکان نے عمران خان کی رہائی سمیت کئی مطالبے کیے تھے۔ اس ٹیم کی قیادت کرنے والے کانگریس رکن جیک برگمین نے 23 جنوری کو ایکس پر لکھا تھا کہ ’حقائق واضح ہیں، لفظوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا وقت نہیں۔ عمران خان کو رہا کرو۔‘ صحافی رائن گریم نے برگمین کی عمران خان سے متعلق ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’انھوں نے عاصم منیر سے عمران خان کی آزادی کے مطالبہ کا ڈھونگ رچایا جس کے ساتھ وہ تصویر میں ہیں۔‘
یاد رہے کہ اکتوبر 2024 میں امریکی کانگریس کے درجنوں ارکان نے عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قید کیے جانے کے خلاف صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا جس میں پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزیوں پر بات کی گئی تھی۔ اس خط میں یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ ’کیا امریکہ پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر سمیت اِن فوجی اور انٹیلیجنس اہلکاروں کے ساتھ روابط قائم کرتا ہے جن پر جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے؟‘ اس خط پر امریکی کانگریس کے جن ارکان نے دستخط کیے تھے ان میں ڈیموکریٹ جماعت کی خارجی امور کی کمیٹی کے رکن جوناتھن جیکسن بھی شامل تھے جو اس تین رکنی وفد کا حصہ تھے جنھوں نے اب جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے۔ خیال رہے کہ جوناتھن جیکسن امریکہ میں شہری حقوق کے معروف کارکن اور سیاستدان جیسی جیکسن کے بیٹے ہیں۔
کانگریس کے پاکستان کاکس کے شریک بانیوں تھامس سوزی اور جیک برگمین نے اکتوبر 2024 کے دوران اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھا تھا۔ اس میں یہ کہا گیا تھا کہ ’ہمیں عمران خان، ان کی قید، ان کے حامیوں کے مظاہروں اور مبینہ ’قید تنہائی‘ سے متعلق کئی سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘ نومبر 2023 کے دوران امریکی کانگریس میں ایک بِل متعارف کرایا گیا تھا جس میں پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جیک برگمین اس بِل کے کے سپانسر تھے جس کے متن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں فوج ’ملکی سیاست پر غیر مناسب اثر و رسوخ رکھتی ہے۔‘
دریں اثنا بعض پی ٹی آئی حامیوں نے امریکی وفد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کریں۔ صارف محمد صدیقی نے لکھا کہ ’مسٹر برگمین۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو غیر قانونی حراست سے آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟ آپ تو پاکستانی فوج کے جرنیلوں کے ساتھ مسکرا رہے ہیں۔‘
احمد حسن نامی صارف نے جیک برگمین کو انھی کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اصل صورت حال جاننے کے لیے آپ کو عمران خان اور ان کی بہن علیمہ خان سے ملنا ہو گا۔‘ اس انٹرویو میں جیک برگمین نے صحافی معید پیرزادہ کو کہا تھا کہ ’یہ مثبت چیز ہو گی اگر ہم عمران خان سے مل سکیں۔ کیا یہ ممکن ہو گا؟ ہم حکومتِ پاکستان کے مہمان ہوں گے۔ ہم امریکی حکومت اور ٹرمپ کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ ہم کاکس کی نمائندگی کریں گے۔‘ واشنگٹن میں مقیم عمرانڈو صحافی شاہین صہبائی نے سوال کیا کہ ’جن دوستوں نے امریکی کانگریس کے اراکین کو پاکستان بھیجا ہے۔۔۔ ان سے سوال ہے کہ کیا یہ لوگ پاکستانی فوج سے ملاقات کرنے اور سرکاری بیانیہ سننے گئے ہیں؟‘