عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کا اکٹھے ہونا ناممکن کیوں ہے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے پی ایم ایل این اور پی پی پی کی اتحادی حکومت کے ساتھ اختلافات جتنے بھی بڑھ جائیں، وہ کسی صورت تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے نہ صرف مولانا کا نقصان ہوگا بلکہ تحریک انصاف کو بھی بہت ذیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ مدارس بل پر مولانا اور حکومت کے اختلافات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ مولانا کے پاس اپنے شکوے ہیں اور حکومت کے پاس اپنی وضاحتیں۔ تعلقات میں رخنہ پڑ چکا ہے۔ ابھی تک طرفین کی جانب سے بیان بازی شروع نہیں ہوئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب الزامات اور اختلافات کے پبلک ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ہر روز مولانا کی جانب سے ایک بیان آتا ہے اور ہر روز حکومت کی جانب سے ایک وضاحت جاری ہوتی ہے۔ ابھی تک دونوں محتاط انداز میں کھیل رہے ہیں۔ لیکن کب تک؟
عمار مسعود کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے نہ کبھی مدارس کی تعلیمی اور مذہبی اہمیت کو سمجھا ہے نہ اسے حکومت کی جانب سے کی جانے والی احتیاطوں سے کوئی غرض ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو صرف اس بات سے مطلب ہے کہ لڑائی ہونے والی ہے اور اس لڑائی کی مدد سے وہ اپنی ڈوبتی نیا کو پار لگا لیں گے۔ تحریک انصاف کے زوال کے بعد یہ ان لوگوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ وہ مسلسل کسی انتشار، اختلاف اور احتجاج کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کا نقصان کر کے جشن مناتی ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہلواتی ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے معاملے میں جب حکومت کو مولانا کی ضرورت تھی تو ہر کوئی مولانا کی بلائیں لے رہا تھا۔ بلاول بھٹو اٹھتے تو وزیر اعظم حاضر ہوتے، وزیر اعظم رخصت ہوتے تو محسن نقوی آ جاتے۔ ان سے فرصت ملتی تو پی ٹی آئی کا وفد آ جاتا۔ اس وقت مولانا نے جو کہا وہ حکومت نے من و عن تسلیم کیا۔ ہر قسم کا قول قرار کیا۔ انکار کا لفظ تک زبان پر نہیں آیا۔
عمار مسعود کے بقول اب 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہو چکی ہے لہازا اب مولانا کے ساتھ حکومت کے تیور بھی بدل رہے ہیں۔ اب دونوں جانب سے لہجوں میں تلخی سی در آئی ہے۔ اب آئی ایم ایف کی تاویلیں دی جا رہی ہیں۔ اب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کے خطرے کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ اب ورلڈ بینک کی طرف سے پابندیوں کے خطرے سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ مولانا کچھ شرائط میں نرمی کریں تو بات ہو سکتی ہے۔ اب پندرہ مدارس بورڈز میں سے دس کی بات صائب مانی جا رہی ہے۔ اب وزارت تعلیم کے تحت ہی مدارس کی رجسٹریشن کی بات کی جا رہی ہے۔
دینی مدارس وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر ہوں گے یا وزارت صنعت کے، اس کے بارے میں حکومت کو اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب حکومت مولانا کے قدموں میں پڑی ہوئی تھی۔ اس وقت نہ کسی کو آئی ایم ایف یاد آیا نہ ورلڈ بینک نہ کسی نے ایف اے ٹی ایف کے بارے میں سوچا نہ بین الاقوامی پابندیوں کا کسی کو خیال آیا۔ اس وقت بس 26 ویں آئینی ترمیم حکومت کے سر پر سوار تھی۔ جیسے ہی وہ ترمیم منظور ہوئی مولانا نے اپنا مطالبہ دہرا دیا۔ اعتراض تو صدر مملکت نے لکھا ہے مگر سب جانتے کہ اعتراض ہے کیا، کیوں ہے اور کس کا ہے؟ عمار مسعود کہتے ہیں کہ اب مولانا بھی ضد پر اتر آئے ہیں۔ اب طبل جنگ بجا دیا ہے اور گھمسان کا رن پڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ مولانا نے دھمکی دی ہے کہ اب فیصلہ سڑکوں پر ہو گا۔ اب ان کے کارکن میدان میں اتریں گے، اب ملین مارچ ہو گا اور پورے ملک سے مولانا کے جاں نثار ڈی چوک پر آئیں گے۔ دھرنا بھی ہوگا اور لانگ مارچ کا بھی اندیشہ ہے۔ اب خون خرابہ ہوگا۔ اس وقت تک دھرنا ہوگا جب تک مطالبات نہیں مانے جائیں گے۔
سینیر صحافی کا کہنا ہے کہ اب یہ دھرنا ہوتا ہے کہ نہیں، اسکا فیصلہ تو حکومت اور مولانا کا رویہ کرے گا لیکن اس وقت پی ٹی آئی والوں نے ڈھول سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے اپنی موٹر سائیکلیوں کے سائلنسر نکال دیے ہیں۔ زہریلے تھمب نیل بنانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مٹھائیوں کی دکانوں پر ایڈوانس بکنگ کروا دی ہے کیونکہ انہیں مولانا کے انقلابی مارچ میں پی ٹی آئی کے مقاصد مضمر نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے اگر مولانا مارچ پر بضد رہے، ان کے کارکن مشتعل رہے تو مولانا اور پی ٹی آئی کا ایک ایسا عظیم الشان اتحاد قائم ہوگا جو عمران خان کی رہائی پر منتج ہوگا۔ اور اس کے بعد امریکا کی مدد سے عمران خان پھر برسر اقتدار آئے گا۔ پھر یو ٹیوبرز کے چینلوں کی رونقیں بحال ہوں گی، پھر ٹک ٹاکرز ملکی سیاست کے فیصلے لکھیں گے، پھر فیس بک پر دور دشنام چلے گا۔ اور ٹوئیٹر پر لگامیں کھول دی جائیں گی۔ شرفاء کی عزتوں کو تماشا بنایا جائے گا اور لوگوں کے گھروں پر سنگ باری کی وڈیوز بنائی جائیں گی اور انہیں وائرل کیا جائے گا۔
ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پی ٹی آئی اور مولانا کا اتحاد ہوجائے گا؟ پی ٹی آئی والوں کے سپنے اپنی جگہ لیکن مولانا اور پی ٹی آئی کا اتحاد بہت ہی مشکل ہے۔ اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو دونوں قوتوں کا ہیڈ کواٹر خیبر پختونخوا ہے۔ اتحاد کے معانی یہ ہوں گے کہ کسی کو اپنے حصے کی جگہ دوسرے کو دینا پڑے گی اور سیاست میں نہ اتنے فراخ دل مولانا ہیں نہ اتنی وسعت قلبی پی ٹی آئی کو میسر ہے۔ دوسرا طرفین کا طرز سیاست بالکل مختلف ہے۔ مولانا کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر آج تک مولانا کے کسی بیان یا تقریر میں ایک بھی ناشائستہ جملہ نہیں کہا گیا۔ دوسری جانب عمران خان نے آج تک اپنی کسی بھی تقریر اور بیان کو اس وقت تک مکمل نہیں کیا جب تک ان میں ناشائستہ جملوں کی بھرمار نہ ہو جائے۔ جتنی تضحیک اور تذلیل عمران خان نے مولانا کی کی ہے اس کے بعد مولانا کے کارکن پی ٹی آئی کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے۔
چنانچہ عمار مسعود کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی او ر مولانا میں اتحاد ہوا تو منظر ایسا ہو گا کہ دونوں پہلوان چت ہو جائیں گے۔ دونوں کے بیانیے کو شکست ہو گی اور سیاست پر لوگوں کا رہا سہا اعتبار بھی ختم ہو جائے گا۔ فی الوقت یہیں پر بات ختم کی جا سکتی ہے کہ گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔