ضمانت کے باوجود عمران خان کا جیل سے باہر آنا ممکن کیوں نہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توشہ خانہ ٹو کیس ضمانت منظور ہونے کے باوجود بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جیل سے رہائی ناممکن ہےسابق وزیراعظم کو جیل سے رہائی کے لیے مزید 66 مقدمات میں ضمانت درکار ہے۔ جس کا امکان آنے والے کچھ عرصے میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
خیال رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ ٹو کیس میں عدالتی ریلیف ایسے وقت میں ملا ہے جب انہوں نے آئندہ ہفتے 24 نومبر کو اجتجاج کی ‘فائنل کال’ دے رکھی ہے۔ تاہم عمران خان کو توشہ خانہ کیس 2 میں ضمانت کے باوجود رہانی نہیں ملےگی،جیل سے رہائی کیلئے بانی پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں درج مزید 16 اور پنجاب میں 9 مئی کے 8 مقدمات سمیت مزید 50 مقدمات میں ضمانت درکار ہو گی۔ یعنی عمران خان کو رہائی کیلئے مجموعی طور پر 66 مقدمات میں ضمانت لینا ہو گی۔ پنجاب میں بانی تحریک انصاف کے خلاف مجموعی طور پر 54 مقدمات درج ہیں جن میں 9 مئی کے 12 مقدمات بھی شامل ہیں۔
محکمہ داخلہ پنجاب کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں 9 مئی کے حوالے سے درج 12 میں 4 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور ہوچکی ہے جبکہ 8 مقدمات میں ضمانت کا فیصلہ 30 نومبر کو ہوگا۔ اس طرح بانی پی ٹی آئی کو پنجاب میں مجموعی طور پر درج 54 میں 50 مقدمات میں ضمانت درکار ہے۔اس لئے توشہ خانہ ٹو میں ضمانت کھ باوجود پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں فوری کار گر ثابت نہیں ہوں گی۔
مبصرین کے مطابق قیادت سے محروم پی ٹی آئی کبھی ڈونلڈ ٹرمپ کبھی ارکان کانگریس اور کبھی برطانوی وزیر خارجہ کے خط سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں وابستہ کر لیتی ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی ملک بھی اتنی جلدی میں نہیں ہے۔ ہر ملک کی اپنی سیاست اور مسائل ہیں۔ عالمی سطح پر چند دنوں میں اہم تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں اور بڑے ممالک اور عالمی طاقتیں کسی نئے معاملہ میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں یوتھیوں کاامریکہ سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں وابستہ کرنا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کو سمجھ لینا چاہیے کہ احتجاج سے بھی عمران خان کی رہائی ناممکن ہے کیونکہ جہاں ایک طرف پارٹی قیادت تقسیم کا شکار ہے وہیں ہر ایک رکن اسمبلی کے لئے دس ہزار اور رکن صوبائی اسمبلی کے لے پانچ ہزار کارکن نکالنا آسان کام نہیں۔فنڈز کا شدید ایشو ہے۔ قیادت یا تو قید ہے یا روپوش ہیں۔ محض اعلان کرنے سے حکومت اور اداروں کے ساتھ سر ٹکرانے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ سیاسی معاملات ہمیشہ بات چیت سے حل ہوتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق 24 نومبر کا احتجاج منسوخ نہ ہوا تو پارٹی پھر دو اڑھائی ہزار کارکن پکڑوا کر دوبارہ اسی تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہو جائے گی۔قیادت پر مزید مقدمات درج ہو جائیں گے۔ اس لئے پی ٹی آئی قیادت کو توشہ خانہ ٹو میں ضمانت کی منظوری پر اتنی جلدی خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں۔سفر ابھی طویل ہے، بانی چیئرمین جیل سے باہر نہیں آ پائیں گے کیونکہ ابھی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں انکی بریَت کی درخواست ہائی کورٹ نے مسترد کر دی ہے اور ٹرائل کورٹ میں کیس چل رہا ہے، اس کیس میں سزا لازمی نظر آ رہی ہے۔اِسی طرح نومئی کے پانچ مقدمات میں بانی چیئرمین جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں اور 27 نومبر کو اس کیس پر سماعت بھی ہے اور انکے ضمانتی مچلکے بھی جمع نہیں اس لیے پنجاب پولیس ان مقدمات پر بھی گرفتاری ڈال دے گی۔
عمران کی رہائی کے لیے امریکی دباؤ کی کوئی اہمیت کیوں نہیں ؟
مبصرین کے مطابق یوتھیے جن عدالتوں کو دن رات گالیاں دیتے ہیں وہی ان کو ہر مقدمے اور اپیل میں ریلیف دیتی جا رہی ہیں اور یہ ساتھ کہتے ہیں ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، یہ ٹوپی ڈرامہ بھی عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ابھی بھی احتجاج میں تین دن باقی ہیں۔ اس لئے پی ٹی آئی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی مذاکرات ہی بچت کا واحد راستہ ہیں اور ٹیبل ٹاک کے ذریعے ہی عمران خان کی رہائی ممکن ہے۔