انقلابی عمران خان کا دوبارہ اقتدار میں آنا ممکن کیوں نہیں؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اقتدار کے متلاشی عمران خان کا غصہ اب پاکستان دشمنی میں ڈھل چکا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنا بھی ان کی اسی مکروہ مہم کا حصہ ہے۔ ’’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ کا نعرہ ملک دشمنی کی آخری حدوں کو چھوتی حکمتِ کار میں ڈھل چکا ہے۔ 9 مئی کی غارت گری سے بھی موصوف کا دِل نہیں بھرا۔ لہازا اس فتنے کو کچلنے کیلئے وہی کچھ کرنا ہوگا جو ترکی کے صدر طیب اردوان نے فتح اللہ گولن کے ساتھ کیا تھا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ سونگھنے کی انتہائی تیز حِس رکھنے والے شکاریوں کو، چاہے وہ انسان ہوں یا جانور، بہت دور سے شکار کی بُو آ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح تحریک انصاف کے بانی قائد عمران خان بھی بہت پہلے بھانپ لیتے ہیں کہ کوئی معزز غیر ملکی مہمان پاکستان آ رہا ہے یا ملک میں کوئی بڑی کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس میں درجنوں سربراہان مملکت شرکت کریں گے۔ اِس اجتماع سے نہ صرف پاکستان کا بین الاقوامی قد کاٹھ بالا ہوگا بلکہ ملکی مفادات کی بھی آبیاری ہوگی۔ سو خان صاحب کی شکاری حسّیات پوری طرح بیدار ہو جاتی ہیں، ان کے اعصاب تن جاتے ہیں، اور ان کے اعضا میں بجلیاں بھر جاتی ہیں اور وہ برق رفتاری سے چوکڑیاں بھرتے ہوئے ڈی چوک کی طرف لپک پڑتے ہیں تاکہ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکا کر معزز مہمانانِ کو بھگا دیا جائے اور پاکستان کے سینے کا تمغہ بننے والی پیش رفت کو اس کے ماتھے کا داغ بنا دیا جائے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی اس کوشش کو عمران خان کبھی حقیقی آزادی سے تعبیر کرتے ہیں، کبھی انقلاب کا نام دیتے ہیں، کبھی آئینی ترامیم کا راستہ روکنے کی جدوجہد قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے عدلیہ کی آزادی کا معرکہ قرار دیتے ہیں۔ خان صاحب 2014 میں اس ’’حُبّ الوطنی‘‘ کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں جب وہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے والے چینی صدر کی راہ میں دیوارِ چین بن کر کھڑے ہوگئے تھے اور دیرینہ دوست ملک کے صدر کو یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔ عرفان صدیقی کے مطابق عمرانی ہیجان واضطراب کا جوالا مکھی اُس دِن سے لاوہ اُگل رہا ہے جب قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد نے ان کی فصیلِ اقتدار پر دستک دی تھی۔ مسلّمہ جمہوری روایات کا تقاضا تھا کہ عمران خان ڈٹ کر مقابلہ کرتے۔ ہار جاتے تو قائدحزب اختلاف کے طورپر اپوزیشن کی قیادت کرتے اور تین چار ووٹوں کی برتری پر قائم ’پی۔ڈی۔ایم‘ کی حکومت کو اُڑا کے رکھ دیتے۔اُنہیں فوری انتخابات بھی مل جاتے اور ممکنہ طورپر اچھے نتائج بھی۔ لیکن خان نے یہ جنہوری راستہ پسند نہ کیا۔ موصوف کبھی سائفر سے کھیلے۔ کبھی امریکہ اور پاک فوج پر گٹھ جوڑ کا الزام لگایا۔اس کے باوجود نوشتۂِ تقدیر نہ ٹلا تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری سے ایک اخلاق باختہ رولنگ دلوا کر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کی کوشش کی۔ پھر موصوف نے مذید احتیاطِ کے طورپر صدر عارف علوی کو حکم دیا کہ قومی اسمبلی توڑ دو۔ وہ بھی ایسا کرنے کو تیار بیٹھے تھے۔ دندان شکن صدر نے اِس سہولت کے ساتھ قومی اسمبلی کو ایوان سے بے دخل کر دیا جیسے کوئی ماہر دَندان ساز کھوکھلے دانت کو نہایت چابک دستی کے ساتھ انگشتِ شہادت کی ہلکی سی جنبش سے نکال باہر کرتا ہے۔
عرفان صدیقی کے بقول مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب خود بھی فریبِ پیہم کا شکار ہیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں کہ اُنہیں پاکستان کے درجنوں دوسرے وزرائے اعظم کی طرح نہ تو محلاتی سازش سے باہر کیاگیا، نہ گورنر جنرل کے فرمان سے، نہ صدارتی اختیار سے، نہ نفاذِ مارشل لا سے اور نہ ہی کسی عدالتی فیصلے سے۔ عمران پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیراعظم تھے جس پر اُسی ایوان نے آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت عدم اعتماد کر دیا جس ایوان نے اُن پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے سَر پر وزارت عظمی کی دستارِ فضیلت سجائی تھی۔ یہ ’’اعزاز‘‘ کسی دوسرے وزیراعظم کے حصّے میں نہیں آیا۔ 1973 کے آئین کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مارشل لا کا نشانہ بنے، محمد خان جونیجو صدارتی تلوار کا ہدف ہوئے، محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں بار آرٹیکل 58 دو بی کا لقمہ بنیں۔ نوازشریف ایک بار 58 دو بی کے ذریعے نکالے گئے، ایک بار ان کی حکومت پر مارشل لا کی تلوار چلی اور ایک بار ججز کے اندھے انصاف کا شکار ہو گئے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی بھی افتخار چوہدری کی زیر قیادت انہی ججز کے عتاب کا شکار ہوئے جن کو انہوں نے نواز شریف کے اصرار ہر بحال کیا تھا، وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، راجہ پرویز اشرف، شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کسی پر بھی ایوان نے عدمِ اعتماد نہیں کیا۔ صرف آئی۔آئی۔ چندریگر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا غوغا اٹھا اور وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ منصب سے ہٹانے کیلئے غیر آئینی، غیرسیاسی اور غیر اخلاقی، آمرانہ اور ’عادلانہ‘ ہتھکنڈے دوسرے وزرائے اعظم کیخلاف استعمال ہوئے۔ ہتھکڑیاں ڈالی گئیں۔ برسوں بندی خانوں کا رزق بنا دیئے گئے۔ وزیراعظم ہائوس سے ہانکتے ہوئے اِس طرح نکالے گئے کہ بندوقوں کی سنگینیں اُن کی پسلیوں میں کھُبی جارہی تھیں۔ تقہم خان صاحب کی خوش قسمتی یے کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اپنے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کا راستہ روکنے اور صدر علوی کی دَندان شکن کوشش کے باوجود وہ فارغ ہوئے تو بصد اہتمام، اپنے اثاثے سمیٹ کر، ہیلی کاپٹر میں بیٹھے اور بنی گالا چلے گئے۔ اڑھائی برس گزرجانے کے بعد بھی وہ یہ باور کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اُن کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا جو دوسروں کے ساتھ ہوتا رہا، صرف آئین کے مطابق، ایوان کی اکثریت نے اُن کی قیادت پر عدمِ اعتماد کردیا۔
عرفان صدیقی کے بقول اب عمران خان کا غصہ پاکستان دشمنی میں ڈھل چکا ہے جس کی متعدد مثالوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنا بھی اسی مکروہ مہم کا حصہ ہے۔ ’’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ کا نعرہ ملک دشمنی کی آخری حدوں کو چھوتی حکمتِ کار میں ڈھل چکا ہے۔ کبھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی باہمی چپقلش، دشمنی کی انتہائی حدوں کو چھورہی تھی۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وفاق میں محترمہ بے نظیر کی حکومت ہوتو پنجاب مسلح جتھے لے کر وزیراعلیٰ کی قیادت میں اسلام آباد پر چڑھائی کردے یا وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہو اورپیپلزپارٹی سندھ سے لشکر لے کر لاہور یا اسلام آباد پر حملہ کش ہوجائے۔ عمران خان نے یہ روایت بھی پائے رعونت تلے روند ڈالی۔ آٹھ سال پہلے، اکتوبر 2016 میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اسلام آباد پر حملہ کیا جو موٹر وے پر روک لیاگیا۔ 25 مئی 2022 کو خود عمران نے صوبائی وزیراعلیٰ محمود خان کو تمام تر حکومتی وسائل کے ساتھ ہمراہ لیا اور اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے۔ اب یہ معمول بن چکا ہے۔ آئے دِن وفاق کی ایک اکائی، اپنے انتظامی سربراہ اور تمام تر وسائل کیساتھ وفاق پر یلغار کردیتی ہے۔ گنڈا پور کے تازہ حملے میں بڑی تعداد افغان باشندوں کی تھی۔ درجن سے زیادہ پولیس اہلکار بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ پولیس، رینجرز، فوج کسی نے ہتھیار استعمال کئے نہ انتشاری ٹولے کو ریاستی ردّعمل کی زد میں رکھا۔ فسادیوں نے اسلام آباد پولیس کانسٹیبل، عبدالحمید شاہ پر تشدد کرکے شہید کردیا۔ ستر سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔ کیا کوئی سیاسی جماعت ایسے کرتی ہے؟ کیا یہ سب کچھ کرنیوالے فسادی جتھے، سیاسی جماعت کہلا سکتے ہیں؟ جانے یہ عفریت کیا چاہتا ہے۔